سعودی عرب نے چھ ایرانی باشندوں کو منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں سزائے موت دے دی ہے۔ یہ سزائیں دمام میں دی گئیں، جو سعودی عرب کے خلیج کے ساحل پر واقع ہے، اور ان افراد کے خلاف مقدمے میں یہ ثابت ہوا کہ انہوں نے ملک میں حشیش کی اسمگلنگ کی تھی۔
یہ افراد سعودی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور ان پر غیر قانونی طور پر منشیات سعودی عرب میں لانے کا الزام تھا۔
گرفتار ہونے کے بعد ان افراد کو عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں ان کے جرم کا ثابت ہونا ثابت ہو گیا۔ عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی، اور ان کی اپیلوں کے مسترد ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا۔
ایک شاہی حکم کے تحت ان کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا، جو قانونی عمل کے آخری مرحلے کی نشاندہی کرتا ہے۔
سعودی عرب نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے شہریوں اور رہائشیوں کی حفاظت کے لیے منشیات اسمگلنگ کے مجرموں کے خلاف سخت سزائیں دے گا۔
وزارت داخلہ نے کہا کہ ملک منشیات سے متعلق جرائم کے مجرموں پر سخت سزائیں عائد کرتا رہے گا۔
وزارت کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات علاقے میں منشیات کے بڑھتے ہوئے مسائل سے نمٹنے اور عوام کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں۔
ان چھ ایرانیوں کی سزائے موت سعودی عرب میں حالیہ برسوں میں ہونے والی سزاؤں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا حصہ ہے۔
صرف 2024 میں، سعودی عرب نے منشیات سے متعلق جرائم میں 117 افراد کو سزائے موت دی ہے، جیسا کہ اے ایف پی کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے۔
ملک نے منشیات اسمگلنگ کے خلاف اپنی کوششیں بڑھا دی ہیں، اور یہ سزائیں 2023 میں شروع ہونے والے ایک وسیع تر مہم کا حصہ ہیں۔
اس مہم میں کئی چھاپے اور گرفتاریاں شامل ہیں، جنہیں بڑے پیمانے پر نشر کیا گیا تھا۔
سعودی عرب نے کچھ سال پہلے منشیات سے متعلق جرائم کے لیے سزائے موت کے استعمال پر پابندی عائد کر دی تھی، لیکن اس موقوفی کے اختتام کے بعد منشیات اسمگلنگ کے جرائم میں سزائیں دوبارہ شروع ہو گئی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سعودی عرب میں سزائے موت کے استعمال کی مسلسل تنقید کی ہے، خاص طور پر منشیات کے معاملات میں۔
تاہم سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ سزائے موت ضروری ہے اور اسے صرف اس صورت میں لاگو کیا جاتا ہے جب تمام قانونی اپیلیں ختم ہو چکی ہوں۔
سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کئی سالوں سے کشیدہ ہیں، خاص طور پر 2016 میں اس وقت جب شیعہ عالم دین نمر النمر کی سزائے موت کے بعد تہران میں سعودی سفارت خانے اور مشہد میں قونصل خانے پر حملے ہوئے تھے۔
تاہم، مارچ 2023 میں چین کی ثالثی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہو گئے۔ اس کے باوجود منشیات کی اسمگلنگ اور سزائے موت کے معاملات کشیدگی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
2023 میں سعودی عرب نے دنیا میں سزائے موت دینے والے ممالک میں چین اور ایران کے بعد تیسرا نمبر حاصل کیا، جیسا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے۔
سعودی عرب میں سزائے موت کا استعمال ایک متنازعہ مسئلہ ہے، جس پر عالمی سطح پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔
سعودی عرب منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف اپنی سخت پوزیشن پر قائم ہے، اور اس کی سزاؤں سے نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی انسانی حقوق کے مسائل پر بحث جاری ہے۔
ان سزاؤں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی حکومت منشیات سے متعلق جرائم کے خلاف اپنی سخت پوزیشن پر قائم ہے-