سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں یوکرین کی جنگ پر امریکی اور روسی حکام کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور مکمل ہوگیا ہے۔
یہ اجلاس سعودی عرب کے قصر الدرعیہ میں ہوا، جہاں دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام نے یوکرین کی جنگ کے خاتمے کے بارے میں بات کی۔
روسی وفد کی قیادت وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کی، جبکہ امریکہ کے وزیر خارجہ مارک روبیو نے امریکی وفد کی نمائندگی کی۔
اس ملاقات میں روس کے صدر کے معاون یوری اوشاکوف، روسی سرمایہ کاری فنڈ کے سربراہ کیریل دیمترییف اور سابق امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز بھی شریک ہوئے۔
یہ مذاکرات ایک نیا اور اہم سنگ میل ہیں کیونکہ یہ روس اور امریکہ کے درمیان یوکرین کی جنگ کے بارے میں ہونے والی پہلی براہ راست بات چیت ہے۔
اس میں یوکرین یا یورپ کے کسی ملک کو مدعو نہیں کیا گیا۔ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اس پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ اس جنگ کے حل میں یوکرین کا براہ راست کردار ہو۔
سعودی عرب کو اس ملاقات کے لیے اس کی غیر جانبدار پوزیشن کی وجہ سے منتخب کیا گیا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اور وزیر مملکت مساعد العیبان نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی تاکہ سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی عالمی سفارتی حیثیت کو ظاہر کیا جا سکے۔
امریکہ کا موقف ہے کہ یہ مذاکرات اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے ہیں کہ آیا روس واقعی جنگ ختم کرنے کے لیے سنجیدہ ہے یا نہیں۔
دوسری طرف روس کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ہے۔
سعودی عرب نے اس مذاکرات کی میزبانی کر کے ایک توازن قائم رکھا ہے کیونکہ سعودی عرب نے اپنے تعلقات کو امریکہ اور روس دونوں کے ساتھ متوازن رکھا ہے۔
اس سے پہلے سعودی عرب نے روس اور یوکرین کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کی کامیاب میزبانی کی تھی، جس سے اسے دونوں فریقوں کا اعتماد حاصل ہوا۔
سعودی عرب کا انتخاب اس لیے بھی کیا گیا کیونکہ یہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کا رکن نہیں ہے، جس نے یوکرین میں جنگ کے دوران روسی صدر پوتن کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کہا ہے کہ وہ روسی صدر پوتن کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے لیے بات چیت کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر سعودی عرب اپنے خریداری کے معاہدوں میں اضافہ کرتا ہے تو وہ سعودی عرب کا دورہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ٹرمپ کو یقین دلایا ہے کہ سعودی عرب امریکہ کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو مزید بڑھانے کے لیے تیار ہے۔
ان مذاکرات کا اثر نہ صرف یوکرین کی جنگ پر پڑ سکتا ہے بلکہ عالمی توانائی کے بازاروں اور عالمی اقتصادی تعلقات پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔
سعودی عرب اور روس دونوں تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک ہیں اور ان کے تعلقات عالمی تیل کی قیمتوں کو متاثر کرتے ہیں۔
ان مذاکرات کے علاوہ سعودی عرب کی پالیسی فلسطین اور اسرائیل کے تعلقات پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہے۔
امریکہ سعودی عرب پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرے، لیکن سعودی عرب کا موقف ہے کہ فلسطینی مسئلے کا حل پہلے ضروری ہے۔
سعودی عرب نے حال ہی میں اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کے غزہ کے فلسطینیوں کو سعودی عرب منتقل کرنے کے بیان کو مسترد کر دیا ہے۔
سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں اپنے عالمی موقف کو مستحکم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔
خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے اور مذہبی پولیس کے اختیارات میں کمی جیسے اصلاحات نے سعودی عرب کی عالمی ساکھ کو بہتر بنایا ہے۔
سعودی عرب نے روس اور یوکرین کے درمیان ثالثی کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ سعودی عرب نے اپنے تعلقات کو امریکہ، روس اور چین کے ساتھ توازن میں رکھا ہے، اور یہ عالمی سیاست میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر ابھرا ہے۔
اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو اس سے عالمی اقتصادی اور سیاسی استحکام میں بہتری آ سکتی ہے۔
سعودی عرب کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ یہ ایک غیر جانبدار ملک ہے اور یہ تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
ان مذاکرات سے عالمی طاقتوں کے درمیان تعاون کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام فریقوں کو اپنے مفادات کا خیال رکھنا پڑے گا۔