سعودی وزیر داخلہ شہزادہ عبدالعزیز بن سعود بن نایف نے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے کے تاریخی فیصلے کے پس پردہ تیاریوں اور مباحث کا انکشاف کیا ہے۔
MBC1 کے پروگرام حکایات وعد” میں گفتگو کرتے ہوئے، انہوں نے اس اہم فیصلے کے نفاذ سے قبل کی مصروف تیاریوں پر روشنی ڈالی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان آٹھ مہینوں نے سعودی خواتین کے لیے ایک اہم موڑ کا تعین کیا۔
شہزادہ عبدالعزیز نے بتایا کہ جب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ وزارت داخلہ کو اس فیصلے کے نفاذ کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا۔
میں نے وزارت کے متعلقہ حکام سے خفیہ مشاورت کے بعد جواب دیا کہ ہمیں آٹھ ماہ سے ایک سال تک کا وقت درکار ہوگا تاکہ ہم اس فیصلے کو بہترین طریقے سے نافذ کر سکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ولی عہد نے ہماری مکمل تیاریوں کا جائزہ لیا اور ہمیں بھرپور حمایت فراہم کی۔
اس مدت کے دوران، ہم نے ڈرائیونگ اسکولز قائم کیے، ضروری نظام وضع کیے، اور یوں یہ سفر شروع ہوا۔
شہزادی شہانہ العزاز، جو شاہی عدالت کی مشیر ہیں، نے اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ جب یہ اعلان ہوا تو میں گاڑی میں محل کی طرف جا رہی تھی۔
ایک ساتھی نے فون پر مبارکباد دی اور بتایا کہ خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے کا فیصلہ جاری ہو چکا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی اور غیر متوقع لمحہ تھا۔
اسی طرح، معاون وزیر برائے کھیل امور، عدوا العریفی نے اپنی ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں روس میں 2018 کے ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے موجود تھی، لیکن اس خبر کے بعد فوراً سعودی عرب واپس آئی۔
میرے پاس بین الاقوامی لائسنس تھا اور پہنچتے ہی میں نے گاڑی چلائی۔ پہلی بار آزادی اور خودمختاری کا احساس ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے نے خواتین کو کام کی جگہ پر حقیقی معنوں میں بااختیار بنایا۔
میں 2018 میں فارمولا ای ٹیم کا حصہ تھی اور مختلف مقامات پر جانا کام کا لازمی حصہ تھا۔
اگر میں ڈرائیو نہ کر سکتی تو یہ میرے کام میں بڑی رکاوٹ ہوتی۔
اس فیصلے نے ہمیں آزادانہ اور بآسانی نقل و حرکت کی اجازت دی، جس سے ہماری پیداواریت میں اضافہ ہوا اور پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں سہولت ملی۔
یہ فیصلہ سعودی عرب میں خواتین کی آزادی اور خودمختاری کی جانب ایک اہم قدم تھا، جس نے معاشرتی ترقی میں خواتین کے کردار کو مزید مستحکم کیا۔