سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں یوکرین تنازع کے حل کے لیے امریکہ اور روس کے وفود کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے۔
ان مذاکرات کا بنیادی مقصد بحیرہ اسود میں کشیدگی کم کرنا اور یوکرین میں جنگ بندی کے امکانات کا جائزہ لینا ہے۔
یہ بات چیت ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی اور روسی صدر ولادیمیر پوتن سے رابطہ کر کے تنازع کے حل پر زور دیا تھا۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ بحیرہ اسود میں ایک وسیع جنگ بندی معاہدہ چاہتے ہیں تاکہ خطے میں جہاز رانی کی سرگرمیاں بحال کی جا سکیں اور معاشی و تجارتی استحکام ممکن ہو۔
ان مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت وائٹ ہاؤس کی سلامتی کونسل کے ڈائریکٹر اینڈریو پیک اور محکمہ خارجہ کے سینیئر عہدیدار مائیکل اینٹن کر رہے ہیں۔
دوسری جانب روسی وفد کی نمائندگی سابق سفارت کار گریگوری کیراسن اور فیڈرل سکیورٹی سروس کے ڈائریکٹر سرگئی بیسیڈا کر رہے ہیں۔
قبل ازیں، یوکرین کے وزیر دفاع رستم عمروف نے کہا تھا کہ ریاض میں امریکی حکام کے ساتھ ہونے والی تازہ ترین بات چیت نتیجہ خیز اور اہم نکات پر مرکوز رہی۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین منصفانہ اور پائیدار امن کے قیام کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا اور مذاکرات میں توانائی کے شعبے اور بنیادی ڈھانچے کے تحفظ پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔
سعودی عرب میں جاری ان مذاکرات کے دوران امریکہ کے خصوصی ایلچی سٹیو وٹکوف نے اس تنازع کے پرامن حل کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ مذاکرات دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کے مہلک ترین تنازع کو ختم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن امن چاہتے ہیں اور سعودی عرب میں ہم حقیقی پیش رفت دیکھ سکتے ہیں، خاص طور پر بحیرہ اسود میں جنگ بندی کے حوالے سے۔
امریکہ اور روس کے درمیان یہ بات چیت ایک اہم سفارتی کوشش ہے جو خطے میں استحکام کی بحالی اور یوکرین میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے کی جا رہی ہے۔
یہ مذاکرات اس وقت فیصلہ کن موڑ پر ہیں، اور عالمی برادری کی نظریں ان پر جمی ہوئی ہیں۔