اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ سعودی عرب اپنے فلسطینی بھائیوں کی ہمیشہ سے بھرپور مدد کرتا آیا ہے لیکن پچھلے دو ہفتوں کے دوران سعودی عرب نے فلسطین کے لیے غیر معمولی کام کیا ہے، مثلاً:
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے سالانہ خطاب میں کہا کہ سعودی عرب آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرے گا۔
سعودی عرب کی طرف سے اب تک فلسطین کو 5 بلین ڈالرز کی امداد فراہم کردی گئی ہے۔
فلسطینی عوام کے لیے انسانی بحران کے خاتمے کے لیے ایک نئی ماہانہ گرانٹ کی منظوری بھی دے دی گئی ہے۔
فلسطین کو بطور مستقل ریاست تسلیم کرنے کے حق میں عالمی برادری پر دباؤ ڈالنے کے لیے سعودی وزیر خارجہ کی مسلسل سفارتی کوششیں جاری ہیں۔
سعودی ولی عہد کی ہدایت پر فلسطین کاز کے لیے ایک نیا عالمی اتحاد تشکیل دیا جا رہا ہے جس کی قیادت سعودی عرب کرے گا۔
سعودی کوششوں کے نتیجے میں فلسطین کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بطور مستقل ریاست کے نشست دے دی گئی ہے۔
ایک سینئر سعودی صحافی نے دار نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پھر بھی کچھ لوگوں کے لاعلمی اور جہالت پر مبنی عمومی جذبات یہ ہیں کہ سعودی عرب کو فلسطین کی پروا نہیں ہے۔
میں ایسے لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ یعنی جب اسرائیل کی بات آئے تو سعودی عرب حقیقی پالیسیوں کی بجائے صرف کھوکھلے بیانات پر اکتفاء کر لیا کرے؟