بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کل سعودی عرب کے دو روزہ دورے پر پہنچیں گے، جس کا بنیادی مقصد دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک پارٹنرشپ کو مزید گہرا کرنا اور توانائی، تجارت، سرمایہ کاری و سکیورٹی جیسے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا ہے۔
مودی کے حالیہ دورے کو سال 2023 میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ بھارت کے بعد ایک تسلسل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
جدہ میں قیام کے دوران نریندر مودی کی ملاقات سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ہو گی جہاں دونوں رہنما نہ صرف باہمی تعلقات پر بات کریں گے بلکہ انڈیا-سعودی اسٹریٹجک پارٹنرشپ کونسل کے دوسرے اجلاس کی مشترکہ صدارت بھی کریں گے۔
یہ کونسل 2019 میں قائم کی گئی تھی جب ولی عہد نے بھارت کا پہلا باضابطہ دورہ کیا تھا اور اسی وقت دونوں ممالک نے معاشی و سکیورٹی روابط کو ادارہ جاتی شکل دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
بھارت کے سیکریٹری خارجہ وکرم مصری کے مطابق یہ دورہ اس لیے بھی خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ سعودی عرب نہ صرف اسلامی دنیا میں نمایاں اثر و رسوخ رکھتا ہے بلکہ مشرق وسطیٰ اور عالمی سیاست میں بھی تیزی سے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس دورے میں توانائی کے شعبے میں شراکت کو مزید مضبوط اور اس میں اسٹریٹجک پہلو شامل کرنے پر بھی تبادلہ خیال ہو گا۔
2023-24 کے تجارتی اعداد و شمار کے مطابق بھارت اور سعودی عرب کے درمیان مجموعی تجارت 43 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، جس نے سعودی عرب کو بھارت کا دوسرا بڑا تجارتی شراکت دار بنا دیا ہے۔
صرف توانائی کے میدان میں دوطرفہ تجارت کا حجم 25 ارب 70 کروڑ ڈالر رہا، جبکہ سعودی عرب بھارت کے لیے تیل، ایل پی جی اور پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی کا تیسرا بڑا ذریعہ ہے۔
اس دورے کی ایک اور اہم جھلک یہ ہے کہ توقع کی جا رہی ہے کہ دونوں ممالک ایک بار پھر مشترکہ ٹاسک فورس کی سرگرمیوں کا جائزہ لیں گے جو 100 ارب ڈالر کی سعودی سرمایہ کاری کو بھارت میں متحرک کرنے کے لیے تشکیل دی گئی تھی۔
اس سلسلے میں پچاس کے قریب ابتدائی معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں مغربی ایشیائی امور کے ماہر پروفیسر مدثر قمر نے کہا کہ یہ دورہ اس لیے بھی غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ دونوں ممالک نہ صرف خطے میں اہم پارٹنر ہیں بلکہ موجودہ بین الاقوامی غیر یقینی صورتحال میں کئی معاملات پر یکساں مؤقف رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈیا-مشرق وسطی-یورپ اکنامک کاریڈور، فوڈ سکیورٹی، انرجی سکیورٹی، دفاعی تعاون اور باہمی سرمایہ کاری جیسے شعبے اس بار کے ایجنڈے پر نمایاں رہیں گے اور ان تمام امور میں مزید پیش رفت کی توقع ہے۔