سعودی عرب کے شمالی ریجن، المعروف حدود الشمالیہ، کے وسیع و عریض صحراؤں میں موجود ہاتھ سے کھودے گئے قدیم کنویں آج بھی انسانی محنت، عزم اور فطرت سے ہم آہنگی کی بے مثال علامت کے طور پر موجود ہیں۔
یہ کنویں نہ صرف ابتدائی تہذیبوں کی بقا کی کہانی سناتے ہیں بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہیں کہ انسان نے سخت ترین حالات میں بھی زندگی کی راہیں نکال لیں۔
سعودی پریس ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ہزاروں سال پہلے جب زمین خشک اور صحرائی ہو چکی تھی، آبا و اجداد نے اپنی محنت اور عقل سے زمین کی گہرائیوں تک پہنچنے کی ٹھانی۔
بغیر کسی جدید اوزار کے، صرف ہاتھوں کی مدد سے ان گہرے کنوؤں کی کھدائی کی گئی تاکہ زندگی کے لیے سب سے قیمتی چیز، یعنی پانی حاصل کیا جا سکے۔
کنوؤں کی دیواریں پتھروں سے احتیاط سے چن کر مضبوط کی جاتیں تاکہ وہ وقت کے تھپیڑوں کا مقابلہ کر سکیں۔
پانی نکالنے کے لیے ابتدائی دور کے سادہ اوزار استعمال کیے جاتے، جن میں بالٹیاں شامل تھیں، اور حاصل شدہ پانی جانوروں کے ذریعے ‘راویہ’ جیسے کنٹینرز میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا۔
ریسرچر اور ماہرِ تاریخ عبدالرحمن التویجری کا کہنا ہے کہ آج حدود الشمالیہ ریجن میں دو ہزار سے زائد ایسے کنویں موجود ہیں، جنہیں انسانوں نے اپنی بقا کے لیے کھودا تھا۔ ان کنوؤں کی موجودگی صحراؤں میں آباد قدیم تہذیبوں کا ایسا ثبوت ہے جو ہزاروں سال پیچھے جھانکنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
صرف قریہ لینہ کے علاقے میں ہی تین سو سے زائد کنویں دریافت ہو چکے ہیں، جو اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ یہ مقامات انسانی زندگی کے تسلسل اور صحرائی مزاحمت کی عظیم داستانیں سناتے ہیں۔
ان صحرائی کنوؤں کی کہانیاں نہ صرف ہمارے آبا و اجداد کی فطرت سے قربت اور زمین سے رشتہ داری کو آشکار کرتی ہیں بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہیں کہ کیسے ان لوگوں نے مشکل ترین قدرتی حالات میں عزم و ہمت سے کام لیا اور زندگی کے تسلسل کو برقرار رکھا۔
گزرتے وقت کے ساتھ ان میں سے کئی قدیم کنویں نئے بستیوں اور دیہات کا حصہ بن چکے ہیں، مگر ان کی تاریخی اور ثقافتی حیثیت اپنی جگہ قائم ہے۔
آج یہ کنویں سعودی عرب کے ثقافتی ورثے کی قیمتی علامت بن چکے ہیں اور ملک میں سیاحتی دلچسپی کا اہم مرکز بھی۔
یہ کنویں نہ صرف مقامی تاریخ سے آگاہی دیتے ہیں بلکہ آنے والے سیاحوں کو بھی ان عظیم محنتوں کا مشاہدہ کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں جو کبھی انسانی بقا کے لیے ناگزیر تھیں۔
سعودی پریس ایجنسی کی جانب سے جاری بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ یہ کنویں محض پانی کے ذخائر نہیں بلکہ انسانی وراثت کا وہ اثاثہ ہیں جسے سنبھالنا اور محفوظ رکھنا آئندہ نسلوں کی ذمہ داری ہے۔