دمشق میں صدارتی محل کے قریب اسرائیلی فضائی حملے نے نہ صرف شام کی خودمختاری اور ریاستی اداروں کو نشانہ بنایا، بلکہ اس واقعے نے پورے خطے میں تشویش کی ایک نئی لہر پیدا کر دی ہے۔
اس حملے پر مسلم دنیا اور عرب خطے میں شدید ردِعمل سامنے آیا ہے، جس میں اسرائیل کے اس اقدام کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے۔
سعودی عرب نے اس حملے کی نہایت سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے شام کی خودمختاری، سلامتی اور استحکام پر ایک کھلا حملہ قرار دیا۔
سعودی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں اسرائیل کے ان مسلسل اقدامات کو فوری طور پر روکنے کی اپیل کی گئی، جنہیں بین الاقوامی قوانین کے منافی اور مشرق وسطیٰ کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔
سعودی عرب نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کی شدت پسندانہ پالیسیوں کا تسلسل خطے میں مزید عدم استحکام، تشدد اور انتہاپسندی کو ہوا دے رہا ہے۔
مملکت نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ شام میں جاری ان جارحانہ کارروائیوں کا سختی سے نوٹس لے۔
دوسری جانب شامی صدارت نے اس حملے کو ریاستی اداروں اور خودمختاری کے خلاف ایک خطرناک اشتعال انگیزی قرار دیتے ہوئے اسے نہ صرف شام بلکہ بین الاقوامی قانون کے لیے بھی ایک چیلنج قرار دیا۔
دمشق حکومت نے عرب دنیا اور عالمی طاقتوں سے اپیل کی کہ وہ ان غیر قانونی اقدامات کے خلاف کھل کر شام کے ساتھ کھڑے ہوں۔
مسلم ورلڈ لیگ، جو دنیا بھر میں اسلامی ممالک کی نمائندہ مذہبی تنظیم سمجھی جاتی ہے، نے بھی اس حملے کو وحشیانہ اور اسرائیل کی جانب سے شام اور خطے کے استحکام کو تباہ کرنے کی دانستہ کوشش قرار دیا۔
تنظیم نے اپنے بیان میں شام کی عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی پالیسی خطے کو مزید بدامنی کی جانب دھکیل رہی ہے۔
خلیج تعاون کونسل (GCC) کے سیکرٹری جنرل جاسم البدیوی نے بھی شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے اس حملے کو ایک سنگین خلاف ورزی قرار دیا، جو مشرق وسطیٰ کے امن اور استحکام کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی یہ کارروائیاں دراصل اس کی اُس پالیسی کا حصہ ہیں جس کے تحت وہ پورے خطے میں کشیدگی کو بڑھانا چاہتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی اعادہ کیا کہ خلیجی ممالک کسی بھی ایسے اقدام کو قطعی طور پر مسترد کرتے ہیں جو شام کی علاقائی سالمیت، قومی وحدت اور خودمختاری کو پامال کرتا ہو۔