سعودی عرب کی جانب سے اقتصادی تنوع، جدید صنعتوں میں سرمایہ کاری اور عالمی سطح پر تجارت و معیشت کا محور بننے کی حکمت عملی کو مزید تقویت ملنے جا رہی ہے، کیونکہ آئندہ ہفتے امریکہ کی معروف کاروباری و تکنالوجی شخصیات پر مشتمل اعلیٰ سطحی وفد سعودی عرب کے اہم دورے پر آ رہا ہے۔
اس دورے میں دنیا کی ممتاز کمپنیوں کے سربراہان اور سرمایہ کاری کے میدان میں بین الاقوامی شہرت رکھنے والے افراد شامل ہوں گے۔
جن نمایاں شخصیات کے آنے کی تصدیق ہوئی ہے ان میں ایلون مسک، جو ٹیسلا اور اسپیس ایکس جیسے عالمی شہرت یافتہ اداروں کے بانی اور سربراہ ہیں، فیس بک کے بانی مارک زکربرگ، عالمی مالیاتی ادارہ بلیک راک کے سی ای او لیری فنک، اوپن اے آئی کے سربراہ سیم آلٹمین، اور ہوائی جہاز سازی کے میدان میں صف اول کی امریکی کمپنی بوئنگ کے اعلیٰ حکام شامل ہیں۔
اس اہم تجارتی اور سرمایہ کاری کے دورے کا مقصد سعودی عرب کے ابھرتے ہوئے شعبوں میں ممکنہ سرمایہ کاری کے امکانات کا جائزہ لینا اور ان میں تعاون کے عملی طریقے طے کرنا ہے۔
اطلاعات کے مطابق امریکی وفد سعودی نجی اور سرکاری شعبے کے رہنماؤں سے ملاقات کرے گا تاکہ گاڑیوں اور ہوائی جہازوں کی صنعت، مصنوعی ذہانت، مالیاتی خدمات، کرپٹو کرنسی، ہتھیار سازی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت کئی کلیدی شعبوں میں شراکت داری کو فروغ دیا جا سکے۔
دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے ان مذاکرات کے دوران باہمی دلچسپی کے متعدد معاہدے طے پانے کی توقع کی جا رہی ہے جو صرف دو طرفہ اقتصادی تعلقات کو ہی نہیں بلکہ عالمی منڈی میں سعودی عرب کی حیثیت کو بھی مزید مضبوط بنائیں گے۔
سعودی حکام کی کوشش ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو متوجہ کر کے مملکت کی معیشت کو روایتی تیل پر انحصار سے ہٹا کر مختلف جدید صنعتی شعبوں کی طرف منتقل کیا جائے۔
یہ اہم دورہ سعودی وژن 2030 کے اہداف کے عین مطابق ہے، جس کے تحت سعودی عرب کو مستقبل میں عالمی سطح پر ایک مضبوط معاشی طاقت بنانے کا عزم کیا گیا ہے۔
امریکی وفد کی سعودی عرب آمد اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی سرمایہ کار سعودی مارکیٹ کو ایک محفوظ، پُرکشش اور ترقی یافتہ مستقبل کے لیے موزوں مقام سمجھتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی یہ دورہ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان کئی دہائیوں پر محیط مستحکم سیاسی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات کا مظہر بھی ہے۔ دونوں ممالک نے ماضی میں بھی کئی اہم شعبوں میں تعاون کیا ہے اور اس نئی پیش رفت کے نتیجے میں توقع ہے کہ دونوں اقوام کا معاشی رشتہ مزید مضبوط ہوگا، جو عالمی معیشت پر مثبت اثر ڈالے گا۔