ریاض : سعودی عرب میں تیزی سے بدلتی سیاحتی دنیا نئی تاریخ رقم کرنے جا رہی ہے۔ فیوچر ہاسپیٹیلیٹی سمٹ 2025 میں شریک ماہرین نے پیشگوئی کی ہے کہ اگر موجودہ رفتار برقراررہی تو 2040 تک سعودی عرب دنیا کی پانچ بڑی سیاحتی منزلوں میں شمار ہو گا۔
عالمی سیاحتی ماہرین کا کہنا ہے کہ جس انداز سے سعودی عرب نے وژن 2030 کے تحت خود کو سیاحت کی نئی جہتوں سے ہم آہنگ کیا ہے، وہ قابلِ تحسین اور حیران کن ہے۔”
"ہمیں صرف کمروں کی تعداد بڑھانے پر توجہ نہیں دینی، بلکہ سیاحوں کو یہاں آنے کا جواز بھی فراہم کرنا ہوگا۔”
یہ کہنا تھا گروتھ پارٹنر کے چیئرمین ابراہیم الترکی کا، جنہوں نے تسلیم کیا کہ 2016 میں وژن 2030 کی ابتدا کے وقت کسی نے بھی اتنی تیز رفتار ترقی کا تصور نہیں کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ "آج ہم جس مقام پر ہیں، وہاں پہنچنا کبھی خواب لگتا تھا۔ اگر ہم نے سیاحوں کے لیے بامعنی تجربات فراہم کیے تو 2040 تک سعودی عرب عالمی سیاحت کا حقیقی مرکز بن جائے گا۔”
ریڈیسن ہوٹل گروپ کے نائب صدر ایلی ملکی کے مطابق سعودی عرب صرف مذہبی سیاحت تک محدود نہیں رہا، بلکہ اب وہ طبی، زرعی، کارپوریٹ اور تفریحی سیاحت کو بھی ترقی دے رہا ہے۔
یہاں ہر قسم کی سیاحت کا احاطہ کیا جا رہا ہے — جو دنیا کے کم ہی ممالک کر پاتے ہیں، انہوں نے کہا ایلی ملکی نے زور دیا کہ صرف بڑے شہروں نہیں بلکہ ثانوی شہروں میں بھی اعلیٰ معیار کے ہوٹلوں کی دستیابی ضروری ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ جدہ یا ریاض سے ہٹ کر بھی لوگ آئیں، تو ہمیں ان مقامات پر پرکشش، جدید سہولیات والے ہوٹل دینے ہوں گے۔
ماہرین نے واضح کیا کہ اگر سیاحت کو پائیدار بنانا ہے تو مقامی افرادی قوت کو تربیت اور مواقع دینا ہوں گے۔نمو صرف ہوٹلوں سے نہیں آتی، بلکہ اُن لوگوں سے آتی ہے جو ان ہوٹلوں کو چلاتے ہیں،” ایک پینلسٹ نے کہاسعودی عرب پہلے ہی سالانہ 100 ملین سیاحوں کا ہدف حاصل کر چکا ہے اور اب 150 ملین سالانہ کا ہدف متعین کر چکا ہے۔
یہ تعداد نہ صرف خطے بلکہ عالمی سیاحت کے لیے بھی ایک مضبوط چیلنج ثابت ہو سکتی ہے۔ سعودی عرب ایک نئے سیاحتی انقلاب کے دہانے پر کھڑا ہے۔ وژن 2030 صرف ایک معاشی منصوبہ نہیں، بلکہ عالمی سیاحت میں سعودی قیادت کے خواب کی عملی شکل بن چکا ہے۔ اب سوال یہ نہیں رہا کہ سعودی عرب کیا کر سکتا ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ کب دنیا کو حیران کرے گا