سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا ایک سادہ مگر گہرے اثرات چھوڑنے والا انداز حالیہ دنوں میں بین الاقوامی سطح پر سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز بنا رہا۔
یہ وہ لمحہ تھا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا اور اس موقع پر ولی عہد نے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھے جو کہ فخر، شکرگزاری اور انسانی جذبات کی سچائی کی نمائندگی کرتا ہے۔
یہ منظر ریاض میں اس وقت سامنے آیا جب امریکی صدر اپنے سرکاری دورے پر تھے، اور اس کے بعد سے لاکھوں افراد نے اسے سراہا اور اس کے اظہار میں اپنی وابستگی کا مظاہرہ کیا۔
اس فطری انداز نے نہ صرف لوگوں کے دل جیتے بلکہ سعودی معاشرتی و ثقافتی رویوں کی نمائندگی کے طور پر بھی ابھر کر سامنے آیا۔
بہت سے صارفین نے اس لمحے کو سعودی قیادت کی انسان دوستی اور عالمی سطح پر مثبت امیج کے ایک مظہر کے طور پر دیکھا۔
اسی جذبے کو دیکھتے ہوئے ایک سعودی نوجوان علی المطرفی نے اس یادگار منظر کو ڈیجیٹل دنیا میں مستقل علامت کے طور پر محفوظ کرنے کا فیصلہ کیا۔
علی المطرفی نے ایک نیا ایموجی ڈیزائن کیا ہے جو ولی عہد کے اس مخصوص انداز یعنی دونوں ہاتھ سینے پر رکھنے کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اعلان کیا کہ انہوں نے اپنی تجویز باضابطہ طور پر یونیکوڈ کنسورشیم کو ارسال کر دی ہے، جو عالمی سطح پر ایموجیز کے معیار، منظوری اور شمولیت کی نگرانی کرتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ ایموجی صرف جذبات کی عکاسی نہیں کرے گا بلکہ سعودی ثقافتی شناخت کے تسلسل اور اس کی عالمی موجودگی کو ایک نئی شکل دے گا۔
علی نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ یہ صرف ایک علامت نہیں بلکہ سعودی عرب کے بدلتے ہوئے ثقافتی مزاج کی عکاسی ہے۔
جیسے ہم نے لیونڈر رنگ کو ریاستی تقریبات کا حصہ بنایا، عربی رسم الخط کو اپنے کرنسی نوٹوں میں اہمیت دی، اور سائنسی و تعلیمی میدانوں میں نوجوانوں کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کی یہ سب اسی پالیسی کا حصہ ہیں کہ ہم اپنی ثقافت کو دنیا کے ساتھ شیئر کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس نئے ایموجی کا مقصد دنیا کو یہ دکھانا ہے کہ سعودی معاشرہ اب محض تماشائی نہیں بلکہ عالمی مکالمے کا فعال حصہ ہے۔
ہم صرف ڈیجیٹل علامتیں نہیں دیتے بلکہ عالمی ڈیجیٹل زبان میں اپنا منفرد لہجہ شامل کر رہے ہیں۔”
اس ایموجی کی خاص بات یہ ہے کہ یہ نہ صرف سعودی معاشرتی جذبات کو سمیٹے ہوئے ہے بلکہ یہ انسانیت، احترام اور تہذیب کے وہ پہلو بھی اجاگر کرتا ہے جو جدید سفارتی تعلقات اور عالمی روایات کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔
دنیا بھر کے سوشل میڈیا صارفین نے اس تجویز کو خوش آئند قرار دیا اور اسے عالمی سطح پر شناخت دینے کی حمایت کی۔
علی المطرفی کے مطابق، ان کی تجویز کردہ ایموجی یونیکوڈ کنسورشیم کی باضابطہ جانچ کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور انہوں نے اس کی تیاری میں تمام مطلوبہ تکنیکی اور موضوعی معیارات کا خاص خیال رکھا ہے تاکہ یہ علامت با آسانی منظوری حاصل کر سکے۔
اس پورے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب سعودی معاشرہ صرف داخلی سطح پر تبدیلی نہیں لا رہا بلکہ عالمی ڈیجیٹل ثقافت میں بھی اپنا بھرپور حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہے۔ علامتی ابلاغ کے اس نئے دور میں، جہاں ایک ایموجی عالمی احساسات کی ترجمانی کرتا ہے، سعودی عرب کی یہ کاوش ایک قابلِ قدر قدم ہے۔
ایسے میں اگر ولی عہد محمد بن سلمان کے فطری انداز کو ڈیجیٹل دائرہ کار میں ایک مستند علامت کے طور پر شامل کر لیا جاتا ہے تو یہ نہ صرف سعودی عوام کے لیے فخر کی بات ہوگی بلکہ دنیا بھر کے صارفین کو ایک نیا طریقہ اظہار بھی فراہم کرے گی۔
یہ کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح ایک چھوٹا سا انداز، جو جذبات کی سچائی سے بھرا ہو، عالمی سطح پر اہمیت اختیار کر سکتا ہے۔
اور یہ بھی کہ جب کسی قوم کے افراد اپنی ثقافت، جذبات اور وقار کو دنیا سے بانٹنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں تو وہ صرف اپنے ملک کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ انسانیت کے ایک خوبصورت پہلو کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔