عرب لیگ کا 34 واں سربراہی اجلاس جو بغداد میں منعقد ہوا، وہ محض ایک رسمی سفارتی اجتماع نہ تھا بلکہ اس موقع نے مشرق وسطیٰ کی سیاست میں موجودہ بحرانوں، چیلنجز اور امکانات پر کھل کر بات کرنے کا نادر موقع فراہم کیا۔
سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ایسا خطاب کیا جو سفارت کاری، انسانی ہمدردی اور امت مسلمہ کے اجتماعی مفادات کا آئینہ دار تھا۔
انہوں نے خاص طور پر فلسطین کے مسئلے کو اپنا مرکزی نکتہ بنایا، جو دہائیوں سے عرب اور مسلم اقوام کی اجتماعی جدوجہد کا مرکز رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی میں جاری ظلم و ستم، بمباری، عورتوں اور بچوں کی شہادت، بنیادی سہولیات کی تباہی اور عالمی خاموشی، پوری انسانیت کے لیے شرمناک اور خطرناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی جارحیت کا یہ سلسلہ کسی فوجی ٹکراؤ تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ ایک منظم نسل کشی کی شکل اختیار کر چکا ہے، جس پر عالمی برادری کا خاموش رہنا خود ایک مجرمانہ رویہ ہے۔
عادل الجبیر نے اپنے خطاب میں یہ واضح کیا کہ سعودی عرب فلسطینیوں کی حمایت محض بیانات تک محدود نہیں رکھتا بلکہ اس کا ہر سفارتی اقدام، ہر بین الاقوامی فورم پر موقف اور ہر انسانی امداد، دراصل ایک اصولی پالیسی کا تسلسل ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق 1967ء کی سرحدوں پر ایک آزاد ریاست کا حق حاصل ہے اور اس ریاست کا دارالحکومت القدس الشریف ہی ہونا چاہیے، جس پر کسی قسم کی سودے بازی یا مفاہمت ممکن نہیں۔
مزید برآں، سعودی وزیر نے اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کڑی تنقید کی۔ ان کے بقول اسرائیل جس بے رحمی سے شہری تنصیبات، اسکولوں، ہسپتالوں اور اقوام متحدہ کے مراکز کو نشانہ بنا رہا ہے، وہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے اور عالمی عدالت انصاف کو اس پر فوری کارروائی کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک عالمی برادری، خصوصاً بڑی طاقتیں، اسرائیل کو کھلی چھوٹ دیتی رہیں گی، تب تک امن کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
اس کے بعد عادل الجبیر نے شام کے مسئلے کی طرف توجہ دلائی۔ انہوں نے کہا کہ شام اس وقت دہائیوں پر محیط خانہ جنگی، غیر ملکی مداخلت، اور داخلی بحرانوں کی لپیٹ میں ہے۔
ان کے مطابق اسرائیل کی جانب سے شامی سرزمین پر کی جانے والی بمباری، نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ شام کی خودمختاری پر کھلا حملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات مشرق وسطیٰ میں ایک اور بڑی جنگ کو جنم دے سکتے ہیں، جو پوری دنیا کے امن کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
عادل الجبیر نے امریکہ کی جانب سے شام پر عائد کچھ اقتصادی پابندیوں میں نرمی کے اشارے کو خوش آئند قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ نرمی حقیقت کا روپ دھارے تو شامی حکومت اور عوام کو ایک نیا موقع ملے گا کہ وہ تعمیر نو، ترقی اور قومی مفاہمت کی طرف بڑھ سکیں۔ انہوں نے عرب ممالک پر بھی زور دیا کہ وہ شام کی بحالی میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ شام کا استحکام پورے خطے کے مفاد میں ہے۔
سوڈان کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مملکت سعودی عرب نے ہمیشہ افریقی امن کے قیام کے لیے مثبت کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوڈان میں جاری مسلح تصادم ایک انسانی المیہ بن چکا ہے جہاں لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سوڈانی فریقین کو فوری طور پر جنگ بندی کر کے ایک جامع اور نتیجہ خیز مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے۔ سعودی عرب اپنی ثالثی کوششیں جاری رکھے گا تاکہ اس بحران کو مستقل حل کی طرف لے جایا جا سکے۔
یمن پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب نے ہمیشہ یہ واضح کیا ہے کہ یمن کا مسئلہ طاقت سے نہیں بلکہ مذاکرات، مصالحت اور شراکت پر مبنی سیاسی عمل سے حل ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یمن کی بندرگاہوں، ہوائی اڈوں اور تجارتی راستوں کو محفوظ بنانا صرف خلیج کے مفاد میں نہیں بلکہ عالمی معیشت کے تسلسل کے لیے بھی ضروری ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ سعودی عرب نے یمن میں انسانی بنیادوں پر جو امداد فراہم کی ہے، وہ دنیا میں کسی بھی ملک کی جانب سے دی جانے والی سب سے بڑی امدادوں میں شامل ہے۔
لبنان کے سیاسی بحران پر روشنی ڈالتے ہوئے عادل الجبیر نے کہا کہ لبنان کو اس وقت اندرونی اختلافات، معیشتی بحران اور حکومتی اداروں کی کمزوری جیسے کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔
سعودی عرب یہ چاہتا ہے کہ لبنان میں ریاستی ادارے مستحکم ہوں، اور مسلح گروہوں کو غیر مسلح کر کے تمام اسلحہ صرف حکومت کے کنٹرول میں لایا جائے تاکہ ملک میں ایک مستحکم اور پائیدار امن قائم ہو سکے۔ انہوں نے لبنانی صدر کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اس عمل میں لبنان کے ساتھ ہے۔
آخر میں عادل الجبیر نے ایک جامع اور مثبت پیغام دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب ہمیشہ امن، مصالحت، ترقی اور بین الاقوامی قانون کی حمایت کرتا آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ وقت مسلم دنیا کے لیے نہایت حساس ہے اور اگر ہم نے اجتماعی بصیرت سے فیصلے نہ کیے تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
یہ طویل خطاب اس بات کا ثبوت تھا کہ سعودی عرب صرف خطے کی طاقتور معیشت نہیں بلکہ سفارتی محاذ پر بھی ایک سنجیدہ اور بامقصد کردار ادا کر رہا ہے۔
اس کی پالیسیوں کا مرکز ہمیشہ انسانیت، انصاف اور استحکام رہا ہے، اور یہی وہ اقدار ہیں جن پر مبنی قیادت، ایک بکھرے ہوئے خطے کو امید، اتحاد اور ترقی کی راہ دکھا سکتی ہے۔
عادل الجبیر نے عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر بھی زور دیا کہ وہ فلسطین، شام، یمن اور سوڈان جیسے بحران زدہ خطوں میں غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کو یقینی بنائیں۔
انہوں نے کہا کہ بعض اوقات میڈیا کی جانبدار کوریج زمینی حقائق کو مسخ کر کے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرتی ہے، جس کا فائدہ ظالم قوتیں اٹھاتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ خبر کو سچائی اور انصاف کی بنیاد پر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ مظلوم اقوام کی آواز دبنے نہ پائے۔