اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس کے دوران سعودی عرب نے نہایت دوٹوک انداز میں بین الاقوامی برادری کو باور کرایا کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام، مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کے قیام کے لیے ناگزیر ہے۔
سعودی عرب کے وفد کی سربراہ محترمہ منال رضوان نے عالمی نمائندوں کے روبرو یہ واضح کیا کہ فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنا محض ایک سیاسی ضرورت نہیں بلکہ یہ ایک اسٹریٹیجک ضرورت ہے جس پر علاقائی استحکام اور امن کا مکمل انحصار ہے۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب سعودی عرب اور فرانس، آئندہ ماہ ایک اہم بین الاقوامی کانفرنس کی مشترکہ میزبانی کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
اس کانفرنس کا مقصد دو ریاستی حل کے نفاذ کو تقویت دینا اور اسرائیل و فلسطین کے مابین کئی دہائیوں سے جاری تنازعے کے حل کی راہ ہموار کرنا ہے۔ سعودی عرب اس مقصد کے حصول کے لیے فعال سفارتی کردار ادا کر رہا ہے۔
منال رضوان نے اپنے خطاب میں اس امر پر زور دیا کہ مسئلہ فلسطین کو صرف انسان دوستی کے تناظر میں نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ یہ ایک قانونی، اخلاقی اور اسٹریٹیجک معاملہ ہے، جس کا منصفانہ اور پائیدار حل ایک ایسے نئے علاقائی نظام کی بنیاد رکھے گا جو بقائے باہمی اور احترام پر مبنی ہوگا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے اپنا قبضہ فوری طور پر ختم کرنا چاہیے تاکہ فلسطینی عوام کو اپنے وطن پر خودمختاری کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہو۔
انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ محض جنگ بندی تک بات محدود نہ رکھیں بلکہ گزشتہ آٹھ دہائیوں سے جاری مظالم اور ناانصافیوں کے مکمل خاتمے کے لیے عملی، ٹھوس اور ناقابل واپسی اقدامات کیے جائیں۔
سعودی نمائندہ نے فلسطینی قیادت، بالخصوص صدر محمود عباس کی جانب سے کی جانے والی اصلاحات کو سراہا اور کہا کہ یہ اصلاحی کوششیں مسئلہ فلسطین کے پرامن حل کے لیے بنیاد فراہم کر سکتی ہیں، بشرطیکہ عالمی برادری اسے سنجیدگی سے لے اور متحرک کردار ادا کرے۔
منال رضوان کا کہنا تھا کہ فلسطین کے مسئلے کو نظر انداز کرنا صرف ایک قوم کے حقوق کی پامالی نہیں بلکہ پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار رکھنے کے مترادف ہے۔
اگر دنیا واقعی امن چاہتی ہے تو اسے فلسطینی ریاست کو عالمی سطح پر تسلیم کرنا ہوگا اور اس کے عوام کو وہ تمام حقوق دینا ہوں گے جن کے وہ مساوی طور پر حقدار ہیں۔