دنیا کے مختلف خطوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت انگیزی، خاص طور پر مغربی ممالک میں قرآنِ مجید کی توہین جیسے دل آزار واقعات اور اسلام کو ایک متنازعہ مذہب کے طور پر پیش کرنے کی بارہا کوششوں نے نہ صرف عالمی مسلم برادری کو شدید صدمے سے دوچار کیا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق اور مذہبی رواداری کے اصولوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ان تمام اشتعال انگیز اقدامات کے تناظر میں سعودی عرب نے اسلاموفوبیا کے انسداد کے لیے ایک مربوط، سنجیدہ اور طویل المدتی مہم کا آغاز کیا ہے، جس کا مقصد نہ صرف اسلامی دنیا کو متحد کرنا ہے بلکہ عالمی پالیسی سازی اور قانون سازی پر بھی مؤثر انداز میں اثرانداز ہونا ہے۔
یہ مہم کسی وقتی جذباتی ردعمل کا اظہار نہیں بلکہ ایک منظم سفارتی اور ادارہ جاتی حکمتِ عملی کا تسلسل ہے، جس کے تحت سعودی حکومت نے اقوامِ متحدہ کے ساتھ تعاون کو مزید مستحکم کرتے ہوئے ایک بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پیش کی ہے۔
اس مجوزہ عالمی اجلاس کا مقصد مختلف تہذیبوں، مذاہب اور اقوام کے درمیان مکالمے، رواداری اور باہمی احترام کو فروغ دینا ہے، تاکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروان چڑھتے تعصب کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے مشترکہ عملی اقدامات کیے جا سکیں۔
سعودی قیادت نے واضح طور پر اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ صرف اسلامی ممالک کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی انسانی حقوق، آزادیِ مذہب اور تہذیبی تنوع کی بقا کا سوال ہے، جس کے لیے دنیا کو متحد ہونا ہوگا۔
اسی سلسلے میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے میگل اینخیل کو اسلاموفوبیا کے خلاف خصوصی ایلچی مقرر کیا ہے، جنہیں عالمی سطح پر نفرت انگیزی کے انسداد کی حکمت عملی مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
سعودی عرب نے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے نہ صرف اقوامِ متحدہ کی مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے بلکہ یہ تجویز بھی دی ہے کہ ریاض میں ایک ایسی بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جائے جس کی میزبانی سعودی عرب کرے اور جس میں اسلامی دنیا، مغربی ممالک اور اقوامِ متحدہ کے اہم ادارے مل بیٹھ کر اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے سنجیدہ مکالمہ کریں۔
اقوامِ متحدہ کی جانب سے 15 مارچ کو "اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن” کے طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے، جو کہ 2019 کے اس المناک سانحے کی یاد دلاتا ہے جب نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر ایک نسل پرست دہشت گرد نے حملہ کر کے 51 نمازیوں کو شہید کر دیا تھا۔
یہ واقعہ دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے خطرناک اثرات کا مظہر بن کر ابھرا اور اسی نے اس عالمی دن کے اعلان کی راہ ہموار کی۔
اس دن کی علامتی اہمیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی ممالک نے اپنی کوششوں کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کیا ہے تاکہ ایک مشترکہ اور متحد ردعمل دیا جا سکے۔
اسی مقصد کے تحت سعودی عرب، پاکستان، ترکی، انڈونیشیا، قطر اور ملائیشیا سمیت کئی اسلامی ممالک پر مشتمل ایک مشترکہ کمیٹی قائم کی گئی ہے، جو اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم پر اسلاموفوبیا کے خلاف باقاعدہ عالمی دن کے لیے مؤثر سفارتی سرگرمیاں انجام دے رہی ہے۔
دیگر اسلامی ریاستیں بھی اس مہم کی بھرپور حمایت کر رہی ہیں اور یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اس دن کو اقوامِ متحدہ کی سطح پر ایک مستقل اور باضابطہ حیثیت دی جائے تاکہ اس کے تحت شعور بیداری، قانون سازی اور میڈیا مہمات کو تقویت مل سکے۔
سعودی عرب نے اس اہم معاملے پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کو بھی متحرک کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
سعودی تجویز پر او آئی سی کی سربراہی میں ایک "اسلاموفوبیا مانیٹرنگ سینٹر” قائم کرنے کی منظوری دی گئی ہے، جو تمام رکن ممالک میں اسلام دشمن بیانیے، نفرت پر مبنی جرائم، امتیازی پالیسیوں اور اشتعال انگیز بیانات پر مسلسل نظر رکھے گا اور ان کی رپورٹنگ کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر شواہد کے ساتھ ردعمل کی راہ ہموار کرے گا۔
سعودی حکومت نے اس ضمن میں معلوماتی اور آگاہی مہمات پر بھی زور دیا ہے۔ مختلف زبانوں میں میڈیا پروڈکٹس تیار کیے جا رہے ہیں، جن کا مقصد نہ صرف اسلام کے حقیقی پیغام کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے بلکہ ان غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہے جو بعض حلقوں کی طرف سے شعوری طور پر پھیلائی جاتی ہیں۔
ان مہمات میں سوشل میڈیا، تعلیمی اداروں، بین الاقوامی تنظیموں اور بین المذاہب مکالمے کو شامل کیا جا رہا ہے تاکہ اسلاموفوبیا کے خلاف مزاحمت کو محض ردعمل تک محدود رکھنے کے بجائے ایک مثبت اور تعمیری بیانیہ کی صورت دی جا سکے۔
سعودی عرب کی قیادت میں اسلامی تعاون تنظیم نے ایک دس سالہ جامع منصوبہ بھی منظور کیا ہے، جس کے تحت تعلیم، میڈیا اور قانون سازی جیسے اہم شعبوں میں عملی اقدامات کیے جائیں گے تاکہ اسلام دشمنی کی جڑیں کاٹ کر بین الاقوامی برادری میں امن، رواداری اور بقائے باہمی کا ماحول پیدا کیا جا سکے۔
اس منصوبے میں مغربی دنیا کے اہم علمی، تدریسی اور قانونی حلقوں سے شراکت داری کی بھی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ وہاں کے پالیسی ساز ادارے اسلام اور مسلمانوں کو تعصب سے پاک، حقیقت پر مبنی تناظر میں دیکھیں۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بارہا اس امر پر زور دے چکے ہیں کہ اسلاموفوبیا صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک عالمی چیلنج ہے، جو تہذیبی ہم آہنگی، انسانی وقار اور بین الاقوامی انصاف کے اصولوں کو چیلنج کر رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دنیا کو نفرت کے خلاف اکٹھا ہونا ہو گا، اور اس میں اسلامی دنیا کا اتحاد، واضح موقف اور تعمیری اقدامات کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ مہم محض ایک وقتی کوشش نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو محفوظ بنانے کی حکمتِ عملی ہے، جو فکری، سماجی، قانونی اور سفارتی ہر سطح پر ایک مکمل نظریاتی اور عملی جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے۔
سعودی عرب اس میدان میں صفِ اول میں کھڑا ہے، اور اس کی قیادت اسلامی دنیا کو ایک مضبوط عالمی آواز فراہم کر رہی ہے، جو دنیا کو باور کرا رہی ہے کہ اسلاموفوبیا کے خلاف خاموشی اختیار کرنا درحقیقت انسانیت کے بنیادی اصولوں سے انحراف ہے۔