ریاض/نیویارک: سعودی حکومت نے اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف عالمی سطح پر سنجیدہ اقدامات تیز کر دیے ہیں۔ مغربی ممالک میں قرآن پاک کی بے حرمتی اور مسلمانوں کو اشتعال دلانے جیسے واقعات کے بعد سعودی عرب نے اسلامی دنیا اور دوست ممالک کو یکجا کرنے کی کوششوں کو مزید مؤثر بنایا ہے تاکہ اسلام کے خلاف نفرت انگیز مہمات کا بھرپور جواب دیا جا سکے۔
اقوامِ متحدہ میں اس مقصد کے لیے ایک مشترکہ کمیٹی قائم کی گئی ہے، جس میں پاکستان، سعودی عرب، ترکی، انڈونیشیا، ملائیشیا اور قطر شامل ہیں۔ اس کمیٹی کی کاوشوں سے 15 مارچ کو "اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن” قرار دیا گیا، کیونکہ اسی روز 2019 میں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر دہشت گرد حملے میں 51 مسلمان شہید ہوئے تھے۔
اقوامِ متحدہ نے اسلاموفوبیا کے انسداد کے لیے "میگل اینخیل موراتینوس” کو خصوصی ایلچی مقرر کیا ہے، جنہیں سعودی عرب کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ ریاض میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جائے، جس میں تہذیبوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے اور اسلاموفوبیا کے خلاف مؤثر عالمی حکمت عملی ترتیب دینے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔
اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی نے بیان دیا ہے کہ وہ تعلیم کے ذریعے اسلام کے حقیقی تصور کو اجاگر کرنے پر توجہ دے رہے ہیں تاکہ مغرب کی جامعات، اسکولوں اور تحقیقی اداروں میں اسلام سے متعلق مثبت اور حقیقی پیغام کو فروغ دیا جا سکے۔
اس سلسلے میں سعودی عرب نے اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے تحت ایک "اسلاموفوبیا مانیٹرنگ سینٹر” کے قیام کی بھرپور حمایت کی ہے، جو مسلمانوں کے خلاف تعصب اور نفرت پر مبنی واقعات کی باقاعدگی سے نگرانی کرے گا۔ علاوہ ازیں، سعودی عرب نے مختلف زبانوں میں آگاہی مہمات، میڈیا پروڈکشنز، اور ان ممالک میں خصوصی تقریبات منعقد کرنے کی بھی حمایت کی ہے جہاں اسلاموفوبیا کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
سعودی عرب نے اسلامی تعاون تنظیم کی سطح پر ایک دس سالہ جامع منصوبہ بھی منظور کرایا ہے جس میں میڈیا، تعلیم، اور قانون سازی کے شعبوں میں مؤثر اقدامات شامل ہیں تاکہ اسلام دشمنی کا مؤثر طور پر خاتمہ کیا جا سکے۔