ریم البلوی، جو سعودی عرب کی کم عمر اور ابھرتی ہوئی معروف ٹی وی میزبانوں میں سے ایک ہیں، نے حال ہی میں عرب نیوز کے معروف شو "دی میمان شو” میں شرکت کرتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا کہ میڈیا کے شعبے میں ان کا سفر عزت اور فخر کا باعث ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اتنی کم عمری میں اس مقام تک پہنچ جائیں گی جہاں آج کھڑی ہیں۔ یہ ان کے لیے ایک خواب کی تعبیر جیسا لمحہ ہے، جس کی ابتدا انہوں نے اپنی یونیورسٹی کے دنوں میں کی۔
ریم البلوی کی شخصیت کا سب سے دلچسپ پہلو ان کا ثقافتی پس منظر ہے، کیونکہ وہ ایک سعودی والد اور میکسیکن والدہ کی بیٹی ہیں۔ یہ دو مختلف ثقافتیں ان کی سوچ، مشاہدے، اور انداز گفتگو میں جھلکتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ دونوں ثقافتیں اپنی تنوع، تاریخ اور ورثے کے لحاظ سے بے حد متاثر کن ہیں، اور اسی نے انہیں دنیا کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع دیا ہے۔ ان کا انداز گفتگو، اعتماد، اور تجسس ان کی اس بین الثقافتی شناخت سے جُڑا ہوا ہے۔
ان کا میڈیا کی دنیا میں باقاعدہ آغاز اس وقت ہوا جب وہ ابھی اپنی بیچلر ڈگری مکمل کر رہی تھیں۔ انہیں ٹی وی ہوسٹنگ کی آفر ملی اور انہوں نے اسے جھٹ قبول کر لیا، حالانکہ اس وقت ان کے پاس تجربہ نہ ہونے کے باعث گھبراہٹ تھی۔
ریم کہتی ہیں کہ انہوں نے سوچا کہ اگر موقع ضائع ہو گیا تو شاید دوبارہ نہ ملے، اس لیے بغیر وقت ضائع کیے اس تجربے کو گلے لگا لیا۔
انہوں نے تقریباً دو ماہ تک باقاعدہ ریہرسل اور تربیت حاصل کی تاکہ خود کو اس نئی ذمہ داری کے لیے تیار کر سکیں۔
ریم کو پہلی ذمہ داری سعودی براڈکاسٹنگ نیٹ ورک کے مارننگ شو میں فیشن اور بیوٹی سیگمنٹ کی میزبانی کی صورت میں ملی۔
وہ بتاتی ہیں کہ اس وقت ان کے لیے یہ شعبہ نیا اور پرکشش تھا، اور چونکہ وہ پہلے سے ماڈلنگ کا تجربہ رکھتی تھیں، اس لیے خود کو اس کردار میں زیادہ دیر اجنبی محسوس نہیں کیا۔ ان کے کام کی سچائی، دلکشی اور خلوص نے جلد ہی ناظرین کا دل جیت لیا۔
بعد ازاں انہیں شو کی مرکزی میزبان بنا دیا گیا، جو ان کے لیے ایک غیر متوقع اور حیران کن لمحہ تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس وقت انہیں لگا کہ شاید یہی وہ مقام ہے جہاں انہیں ہونا چاہیے تھا۔ ریم نے اپنے آغاز کے سفر میں جن چیلنجز کا سامنا کیا، ان میں تعلیم اور کام کے درمیان توازن سب سے اہم تھا۔
وہ اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ ابتدا میں انہیں ڈر تھا کہ وہ دونوں چیزوں کو ایک ساتھ کیسے سنبھال پائیں گی، لیکن انہوں نے خود کو موقع دیا اور خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھتی گئیں۔
ماڈلنگ سے لے کر ٹی وی ہوسٹنگ تک، ریم نے اپنے اندر چھپی تخلیقی صلاحیتوں کو دریافت کیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ پانچ سال پہلے فیشن اور بیوٹی کی دنیا آج جیسی نہیں تھی، اور انہوں نے اس تبدیلی کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اس کا حصہ بھی بنیں۔
فیشن کمیشن اور ماڈلنگ کے نئے مواقع کے ساتھ جو سفر آگے بڑھا، اس پر وہ بے حد فخر محسوس کرتی ہیں۔
ریم البلوی کی کہانی اس بات کی واضح مثال ہے کہ اگر کوئی نوجوان اپنے خوابوں پر یقین رکھے اور وقت پر صحیح فیصلے کرے، تو وہ مختصر وقت میں بھی وہ مقام حاصل کر سکتا ہے جس کا وہ کبھی تصور بھی نہیں کرتا۔
ریم نہ صرف سعودی میڈیا کا روشن چہرہ ہیں بلکہ وہ نئی نسل کے لیے ایک مثبت رول ماڈل بھی بن چکی ہیں۔