سعودی عرب کی ریاستی آئل کمپنی آرامکو نے بحرِ عرب کے ساحل پر، عبیع جزیرے پر واقع، ریجنل سنسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ آف فشریز (RCSDF) کے تحت ایک نیا مرکز قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ منصوبہ توانائی اور ماحولیات و زراعت کی وزارتوں کے تعاون سے شروع کیا گیا اور اس کا مقصد ماحولیاتی توازن کے ساتھ مقامی ماہی گیروں کی معاشی ترقی میں مدد فراہم کرنا ہے۔
یہ مرکز ایک جدید فش ہیچرری (ماہی لادنے والی سہولت) پر مشتمل ہے جہاں پر محدود ذخائر کو دوبارہ بھرنے اور ماہی پرورش کے جدید طریقے استعمال کیے جائیں گے۔
ابتدائی مرحلے میں ہیچرری کے ٹینک میں ان مقامی مچھلیوں کو پروان چڑھایا جائے گا جن کی تعداد حالیہ برسوں میں ماہی گیری کی وجہ سے خطرناک حد تک کم ہو گئی تھی۔
اس مرکز میں مچھلیوں کی مکمل زندگی کی نگرانی کی جائے گی — والدین سے انڈے نکالے جائیں گے، لاروا تیار کیے جائیں گے، اور بالآخر جوان مچھلوں کو سمندر میں چھوڑ دیا جائے گا۔
اسی پروگرام کے تحت ماحول دوستی میں اضافے کے لیے پانی کو ری سائیکل کرنے کا نظام استعمال کیا جائے گا، جس سے پانی کی بچت ہو گی اور ماہیوں کی صحت کو بھی برقرار رکھا جائے گا۔
یہ سہولت مکمل طور پر جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ہے تاکہ مچھلیوں کی بیماری اور ماحولیات سے متعلق مسائل کم سے کم ہوں۔
علاوہ ازیں، آرامکو کی اس حکمت عملی کا حصہ حصے کے طور پر بحیرہ عرب میں قائم کیے گئے مینگرووز کا تحفظ بھی شامل ہے۔
اب تک کمپنی نے 43 ملین سے زائد درخت لگائے، جو جوان مچھلیوں کے لیے قدرتی حفاظتی اور پرورش کے علاقے کا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ اقدامات بحری حیات کے تحفظ اور بحیرہ عرب کے سمندری ماحول کی تجدید کا حصہ ہیں۔
سالم الحریش، آرامکو کے کمیونٹی سروسز کے سینئر نائب صدر، نے اس مرکز کے قیام کو مقامی معیشت میں خود کفالت اور محفوظ طریقے سے پھیلتے ہوئے مواقع کا ذریعہ قرار دیا اور کہا کہ "یہ ماہی پرورش کا ماڈل نہ صرف ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھتا ہے بلکہ یہ مقامی معاشی ترقی کا سبب بھی بنتا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ "ہماری کوشش ہے کہ یہ مرکز قومی ماہی پرورش کی خواہشات اور عالمی ماحولیاتی تصورات کے امتزاج سے ایک شاندار تعمیری پہل ثابت ہو۔”
یہ جامع منصوبہ واضح کرتا ہے کہ آرامکو کی توجہ صرف تیل پر منحصر نہیں بلکہ وہ موسمیاتی عمل اور قدرتی وسائل کے استحصال کو روکتے ہوئے معاشی منصوبوں میں بھی مصروف عمل ہے۔
ماحولیاتی تحفظ اور معاشی ترقی کے اس متحرک امتزاج میں یہ سنگ میل اہم ثابت ہو گا، خاص طور پر سعودی وژن 2030 کے تحت کامیاب ہونے والے اقدامات میں۔