تبوک کے شمال مغرب میں، برف سے ڈھکے پہاڑوں اور سرخ ریت کے حسین دامن میں چھپا ہوا علقان کا تاریخی گاؤں سعودی عرب کا وہ حیرت انگیز مقام ہے جو ایک ہی وقت میں قدرتی حسن، تاریخی ورثے اور منفرد فنِ تعمیر کا حسین امتزاج پیش کرتا ہے۔
ماضی کی یادوں کو سنبھالے یہ گاؤں 1934 میں شاہ عبدالعزیز کے حکم پر آباد کیا گیا، جس میں آج بھی 20 قدیم مکانات سرخ پتھروں، گارے، پام کے تنوں اور چوڑے پتوں سے بنے ہوئے محفوظ حالت میں موجود ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان عمارتوں کو زمین سے کچھ اونچا بنایا گیا ہے تاکہ وہ صحرا کی نمی، بارشوں اور ہوا کے بہاؤ سے محفوظ رہیں جو وہاں کے باسیوں کی موسمیاتی سمجھداری کی گواہی دیتا ہے۔
علقان کی سب سے منفرد پہچان اس کی برفباری ہے، جو سعودی عرب جیسے گرم اور ریگستانی ملک میں ایک نایاب منظر سمجھا جاتا ہے۔ 1945 اور 1965 میں برفانی طوفانوں نے اسے موسمِ سرما کے ایک پُرسکون اور پرفضا مقام کی حیثیت دے دی، جس کے باعث آج بھی سردیوں میں یہاں سیاحوں کا رش لگ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حقل شہر کے قریب یہ گاؤں "برف کا شہر” کہلاتا ہے اور اپنے مخصوص موسم، روایتی طرزِ تعمیر اور خاموش مناظر کے باعث دل موہ لینے والی جاذبیت رکھتا ہے۔
مملکتِ سعودی عرب نے اس قریے کو ‘نیشنل رجسٹر فار آرکیٹیکچرل ہیریٹیج’ میں شامل کر کے اپنے تاریخی ورثے کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے۔ علقان کے قریبی علاقے میں موجود 1965 میں تعمیر کردہ کسٹم چیک پوسٹ، اور قدیم کنوئیں جن میں ابوالعلق کا کنواں بھی شامل ہے، اس بستی کی کہانی کو اور بھی گہرا اور قیمتی بناتے ہیں۔
بعض مقامی افراد کا کہنا ہے کہ گاؤں کا نام انہی کنوؤں کے پانی میں دکھائی دینے والے ننھے ذرات پر رکھا گیا ہے، جو قدرتی خوبصورتی کے ساتھ اسرار کا پہلو بھی رکھتے ہیں۔
علقان نہ صرف سعودی تاریخ کا ایک روشن باب ہے بلکہ یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ریگستان میں برف جیسا انوکھا تجربہ بھی ممکن ہے۔ آج، جب دنیا جدید شہروں اور مصنوعی مناظر کی طرف بڑھ رہی ہے، علقان خاموشی سے اپنی صدیوں پرانی شناخت اور قدرتی وقار کو تھامے سیاحوں کو ایک نایاب، فطری اور تاریخی سفر پر بلاتا ہے۔