سعودی عرب نے حالیہ دنوں اسرائیلی وزیر انصاف یاریف لیون کی جانب سے مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے سے متعلق دیے گئے اشتعال انگیز بیان پر سخت ردعمل دیا ہے۔
سعودی وزارت خارجہ نے اس بیان کو نہ صرف اشتعال انگیز بلکہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے سراسر منافی قرار دیا۔ ریاض حکومت کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے اقدامات عالمی امن و استحکام کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو مزید بھڑکا سکتے ہیں۔
اسرائیلی وزیر کا یہ متنازعہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب وہ آبادکاروں کے ایک گروہ سے ملاقات کر رہے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ اب مغربی کنارے کو اسرائیل کا باقاعدہ حصہ بنانے کا وقت آ چکا ہے۔
یہ وہ علاقہ ہے جس پر اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے دوران ناجائز قبضہ کیا تھا، اور بعد ازاں وہاں متعدد غیرقانونی بستیاں قائم کی گئیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک اور اقوام متحدہ ان بستیوں کو غیرقانونی تصور کرتے ہیں، اور ان کے خلاف بارہا مذمتی قراردادیں منظور کی جا چکی ہیں۔
سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں نہ صرف اس غیرقانونی قبضے کی شدید مذمت کی، بلکہ واضح انداز میں کہا کہ فلسطینی سرزمین پر نئی بستیوں کی تعمیر یا ان میں توسیع کی کوئی بھی کوشش ناقابل قبول ہے۔
ریاض نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کا پابند بنائے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت فلسطینی عوام کو ان کے تمام جائز اور قانونی حقوق فراہم کیے جائیں۔
مزید برآں، سعودی عرب نے اپنے دیرینہ اور واضح موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کی مکمل حمایت جاری رکھی جائے گی۔
ریاض حکومت نے اس عزم کو بھی دہراتے ہوئے کہا کہ ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام، جو 1967 کی سرحدوں کے مطابق ہو اور جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو، خطے میں پائیدار امن کے لیے ناگزیر ہے۔
سعودی عرب کے مطابق یہی مؤقف بین الاقوامی قانونی حیثیت اور عرب امن منصوبے کے عین مطابق ہے، جسے اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کے وسیع تر حلقے تسلیم کرتے ہیں۔
بیان میں واضح کیا گیا کہ ایسے بیانات نہ صرف اسرائیلی انتہا پسندی کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ فلسطینی عوام کے خلاف جارحانہ عزائم کو بھی بے نقاب کرتے ہیں۔
سعودی عرب نے ایک مرتبہ پھر عالمی طاقتوں، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ اور اسرائیل کی غیرقانونی سرگرمیوں کے خلاف مؤثر اقدامات کریں تاکہ مشرق وسطیٰ میں امن و انصاف کا قیام ممکن ہو سکے۔
ریاض نے اپنے موقف کو ایک بار پھر نہایت دوٹوک انداز میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ فلسطینی عوام کی جدوجہد کے ساتھ کھڑا ہے اور ان کے قانونی، سیاسی اور انسانی حقوق کے حصول کے لیے ہر ممکن تعاون جاری رکھے گا۔