شام کے بحران پر عرب اور خطے کے وزرائے خارجہ کی حالیہ مشاورت میں اس بات پر اتفاق رائے سامنے آیا ہے کہ شام کی خودمختاری، سالمیت، اندرونی استحکام اور قومی اتحاد کو مضبوط بنانے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے، اور ہر اس کوشش کو مسترد کیا جائے جو شام کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کی صورت میں ہو۔
اس حوالے سے عرب ممالک کا موقف پہلے سے زیادہ واضح اور مربوط نظر آتا ہے، جس میں یہ عندیہ دیا گیا ہے کہ شام کی تعمیر نو اور قومی مفاہمت کا عمل صرف اسی صورت کامیاب ہو سکتا ہے جب اسے شام کے اپنے شہریوں کی مرضی اور قومی خودمختاری کے تحت آگے بڑھایا جائے۔
اس دو روزہ مشاورت میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکیہ، اردن، عراق، بحرین، عمان، کویت، قطر، لبنان اور مصر جیسے اہم ممالک کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی اور شام کی موجودہ صورت حال، بالخصوص سیکیورٹی بحران اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ شام کا مستقبل اس کے اتحاد، خودمختارانہ فیصلوں اور شہریوں کے مکمل تحفظ سے جڑا ہوا ہے، اور کسی بھی بیرونی سیاسی، عسکری یا خفیہ مداخلت کی حمایت نہیں کی جائے گی۔
مشترکہ اعلامیے میں السویدا کے علاقے میں سیاسی تصفیے کی طرف ہونے والی پیش رفت کو خوش آئند قرار دیا گیا، اور وہاں کے عوام کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ شامی حکومت کے اس عزم کو سراہا گیا کہ وہ السویدا اور دیگر علاقوں میں عام شہریوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں میں ملوث عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے پرعزم ہے۔ قانون کی حکمرانی، ادارہ جاتی شفافیت اور شہریوں کے جان و مال کا تحفظ وہ بنیادی اصول ہیں جن پر تمام وزرائے خارجہ نے اتفاق کیا۔
ان وزراء نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ وہ شام میں تعمیر نو کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے شامی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کرے، تاکہ جنگ سے متاثرہ علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی بحالی، عوامی سہولیات کی فراہمی اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکیں۔ اجلاس میں زور دیا گیا کہ شامی عوام نے برسوں کے جنگی حالات کا سامنا کیا ہے، اور اب وہ ایک پُرامن، باوقار اور خودمختار زندگی کے حقدار ہیں، جس میں عالمی طاقتوں کا کردار تعمیری اور مددگار ہونا چاہیے، نہ کہ مداخلت پسند۔
شامی سرزمین پر اسرائیلی جارحیت پر بھی وزرائے خارجہ نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی، اور انہیں اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قوانین اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیل شام کے مقبوضہ علاقوں سے مکمل طور پر دستبردار ہو اور 1974 کے معاہدے پر فوری عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ خطے میں پائیدار امن کی بنیاد رکھی جا سکے۔
وزراء نے متفقہ طور پر اس بات پر زور دیا کہ شام میں امن، استحکام اور سلامتی کا قیام نہ صرف خود شام کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ پورے مشرق وسطیٰ کے امن کے لیے ناگزیر ہے۔ عرب ممالک کی قیادت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ شام کی سیکیورٹی کو نظر انداز کر کے خطے میں پائیدار امن حاصل کرنا ممکن نہیں۔ چنانچہ شامی عوام کو ان کا حق دلانے، ان کے ملک کی سالمیت کی حفاظت اور بیرونی سیاسی چالوں سے محفوظ رکھنے کے لیے عرب دنیا ہر ممکن سفارتی اور انسانی تعاون فراہم کرے گی۔