ریاض (بین الاقوامی نیوز ڈیسک) — سعودی عرب کے ‘سوئے ہوئے شہزادے’ کے نام سے دنیا بھر میں مشہور شہزادہ الولید بن خالد آل سعود طویل جدوجہد اور بے حسی کی حالت میں 20 سال گزارنے کے بعد 36 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کا انتقال ایک ایسے دکھ بھرے باب کا اختتام ہے جو نہ صرف سعودی عوام بلکہ دنیا بھر میں انسانیت اور امید کی ایک علامت بن چکا تھا۔
شہزادہ الولید، 2005 میں صرف 15 برس کی عمر میں لندن میں ایک ہولناک ٹریفک حادثے کا شکار ہوئے تھے، جب وہ ایک ملٹری کالج میں زیر تعلیم تھے۔ حادثے میں دماغ کی رگ پھٹنے اور اندرونی خون بہنے کے باعث وہ کومہ میں چلے گئے، جہاں سے وہ کبھی مکمل ہوش میں واپس نہ آ سکے۔ حادثے کے فوری بعد انہیں ریاض کے کنگ عبدالعزیز میڈیکل سٹی منتقل کیا گیا، جہاں وہ گزشتہ دو دہائیوں سے وینٹی لیٹر پر زندگی کی جنگ لڑ رہے تھے۔
اس افسوسناک خبر کی تصدیق ان کے والد شہزادہ خالد بن طلال آل سعود نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ (سابقہ ٹوئٹر) پر کی۔ ایک جذباتی پیغام میں انہوں نے قرآن کی آیت کے ساتھ لکھا: ”اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر کامل ایمان رکھتے ہوئے، انتہائی رنج و غم کے ساتھ ہم اپنے پیارے بیٹے شہزادہ الولید بن خالد کے انتقال پر سوگوار ہیں۔ اللہ ان پر رحم فرمائے۔“
شہزادہ خالد نے دو دہائیوں تک امید کا دامن نہیں چھوڑا۔ وہ ہر لمحہ اپنے بیٹے کی دیکھ بھال میں شریک رہے اور لائف سپورٹ ہٹانے کے دباؤ کو سختی سے مسترد کرتے رہے۔ اس طویل آزمائش کے دوران، شہزادہ الولید عالمی میڈیا، انسانی ہمدردی کی کہانیوں اور سوشل میڈیا کا ایک مرکزی کردار بنے رہے۔
ان کے انتقال کی خبر آتے ہی ’سویا ہوا شہزادہ‘ کا ہیش ٹیگ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنے لگا۔ ہزاروں افراد نے شہزادے کی طویل جدوجہد پر خراج تحسین پیش کیا اور ان کے اہل خانہ سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا۔ ایک صارف نے لکھا: ”ان کی زندگی صبر، امید اور محبت کی مثال تھی۔“ دوسرا صارف بولا: ”اللہ ان کی نرم روح کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔“
شہزادے کی نماز جنازہ آج ریاض کی امام ترکی بن عبداللہ مسجد میں ادا کی جائے گی، جس میں شاہی خاندان کے افراد، اعلیٰ شخصیات اور عوام کی بڑی تعداد کی شرکت متوقع ہے۔