سعودی عرب نے بین الاقوامی برادری کی ان کوششوں کو سراہا ہے جن کے تحت فلسطینی علاقے غزہ میں جاری بدترین انسانی بحران کے خاتمے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
26 ممالک پر مشتمل عالمی شراکت داروں کے ایک حالیہ مشترکہ اعلامیے میں اسرائیل کی جانب سے جاری فوجی کارروائیوں کو روکنے، انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد پر عائد تمام رکاوٹوں کو ہٹانے اور امدادی سامان کو محفوظ اور تیز تر انداز میں غزہ کے متاثرہ عوام تک پہنچانے پر زور دیا گیا۔ سعودی عرب نے اس اقدام کو انسانی اقدار سے ہم آہنگ قرار دیتے ہوئے اس کا پُرجوش خیرمقدم کیا ہے۔
سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں اسرائیلی فوج اور حکومت کے اُن اقدامات کی شدید مذمت کی گئی ہے جن کے ذریعے نہ صرف فلسطینیوں کی بنیادی انسانی ضروریات کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ اُنہیں بھوک، پیاس اور علاج جیسی لازمی سہولیات سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔
سعودی عرب نے اسرائیل کی اس پالیسی کو "غیر انسانی اور ظالمانہ” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرزِ عمل کو کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر اس وقت جب معصوم شہریوں کو دانستہ ہدف بنایا جا رہا ہو۔
علاوہ ازیں، سعودی عرب نے زور دیا ہے کہ دنیا کی طاقتور حکومتیں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اسرائیلی ہٹ دھرمی کے سامنے خاموشی اختیار نہ کریں بلکہ عملی، فوری اور ٹھوس اقدامات کریں تاکہ اسرائیل کی جانب سے جاری مظالم اور غزہ میں انسانی المیے کو مزید گہرا ہونے سے روکا جا سکے۔
سعودی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل نہ صرف بحران کو طول دے رہا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی امن کی کوششوں کو بھی کمزور کرنے کی دانستہ کوشش کر رہا ہے۔
بیان میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی آباد کاری کے غیر قانونی اور توسیع پسندانہ منصوبوں کو بھی کھلے الفاظ میں مسترد کیا گیا ہے۔ سعودی عرب نے واضح کیا ہے کہ ان منصوبوں کے ذریعے فلسطینی سرزمین پر آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ایک جارحانہ پالیسی کا حصہ ہے جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور کسی بھی مہذب عالمی ضمیر کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔
سعودی عرب کا مؤقف ہے کہ فلسطینی عوام کو اُن کے جائز حقوق دلانے اور اُنہیں ظلم و ستم سے بچانے کے لیے عالمی اتحاد کی فوری ضرورت ہے۔
یہی وقت ہے کہ عالمی برادری اسرائیلی مظالم کے خلاف متفق ہو کر مضبوط اور مؤثر آواز بلند کرے تاکہ نہ صرف غزہ کے مظلوم شہریوں کو ریلیف دیا جا سکے بلکہ پورے خطے میں قیام امن کی کوششوں کو نئی سمت دی جا سکے۔