سعودی عرب میں جاری ڈیجیٹل انقلاب کے پس منظر میں مملکت کی قومی تاریخ کو جدید خطوط پر محفوظ کرنے کے لیے ’کنگ عبدالعزیز فاؤنڈیشن فار ریسرچ اینڈ آرکائیوز‘، جسے مختصراً ’دارۃ‘ کہا جاتا ہے، نہایت سرگرم نظر آ رہا ہے۔
یہ ادارہ نہ صرف ماضی کی گم شدہ دستاویزات کو جمع کرنے، ترتیب دینے اور محفوظ رکھنے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہے بلکہ قومی تشخص کی شناخت اور علمی ترقی کے نئے در کھولنے میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔
دارۃ کے تحت شروع کیا گیا ایک نیا اور جامع پروگرام ’دارۃ دستاویزات‘ سعودی وژن 2030 کی روشنی میں ایک اہم سنگ میل سمجھا جا رہا ہے۔ یہ منصوبہ محض تاریخی کاغذات کو جمع کرنے کا عمل نہیں بلکہ ان کو سائنسی بنیادوں پر ڈیجیٹل صورت میں محفوظ کرنے اور محققین کو جدید ترین ذرائع کے ذریعے ان تک فوری اور قابلِ اعتماد رسائی فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔
اس پروگرام کا مقصد یہ ہے کہ ماضی کے اوراق صرف محفوظ نہ رہیں بلکہ وہ موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لیے سیکھنے اور تحقیق کرنے کا زندہ ذریعہ بنیں۔
دارۃ کے سی ای او، ڈاکٹر ترکی الشویعر کے مطابق اس انیشیٹیو کی روح یہ ہے کہ محققین، مورخین اور علمی ادارے بغیر کسی رکاوٹ کے قومی ورثے سے فائدہ اٹھا سکیں۔
ان کے بقول، ’دارۃ نہ صرف کاغذی مواد کو ڈیجیٹل شکل میں منتقل کر رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ایک ایسا علمی پلیٹ فارم بھی تخلیق کر رہا ہے جو تاریخ، تعلیم، معاشرت، سیاست اور فنون لطیفہ سے متعلق شعبوں کو مستند معلومات فراہم کر سکے۔‘
اس قومی اقدام کے تحت نہایت جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے جن میں ہائی ریزولوشن اسکینر، عالمی معیار کے ڈیجیٹائزیشن پروٹوکولز، اور مرتب شدہ ڈیٹا فہرستیں شامل ہیں تاکہ ہر مرحلے پر مواد کی درستگی اور رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔
یہ تمام عمل نہ صرف مستند طریقے سے کیا جاتا ہے بلکہ اسے ایک ایسا منظم ڈیجیٹل نظام بنایا گیا ہے جس میں ذخیرہ کردہ معلومات کو باآسانی تلاش اور استعمال کیا جا سکتا ہے۔
شہزادہ فیصل بن سلمان، جو دارۃ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین بھی ہیں، نے اس انیشیٹیو کو مملکت کی علمی، ثقافتی اور ڈیجیٹل ترقی کے لیے ایک اہم اقدام قرار دیتے ہوئے اس کی بھرپور تائید کی ہے۔
ان کے مطابق ایسے منصوبے سعودی عرب کی علمی خود مختاری کو مستحکم بنانے اور عالمی علمی برادری میں اسے ایک معتبر مقام دینے میں مددگار ہوں گے۔
دارۃ کا نصب العین یہ ہے کہ قومی تاریخی مواد کو ایک ساکن محفوظ خانے میں محدود نہ رکھا جائے بلکہ اسے جدید علمی آلہ بنا کر معاشرتی ترقی، سائنسی تحقیق اور ثقافتی شعور کی بیداری کے لیے استعمال میں لایا جائے۔
اس تناظر میں دستاویزات کو محض معلومات کے ذخیرے کے طور پر نہیں بلکہ قومی بیانیے کے ایک متحرک اور قابلِ استفادہ ستون کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔
ترکی الشویعر کے مطابق، ’ہمارا مقصد صرف محفوظ کرنا نہیں بلکہ دستاویزات کو زندہ رکھنا، انہیں بولنے دینا اور ان کے ذریعے تحقیق و تعلیم کے شعبوں میں نئی راہیں متعین کرنا ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ دارۃ کی کوشش ہے کہ مملکت کے تاریخی سرمائے کو صرف محفوظ نہ کیا جائے بلکہ اسے سائنسی انداز میں ترتیب دے کر آنے والی نسلوں کے لیے بامقصد بنایا جائے۔