سعودی عرب کے معروف فوٹوگرافر محمد الفالح نے اپنی فوٹوگرافی کی دنیا کو ایک مشن میں بدل لیا ہے۔ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ کس طرح چہروں، لمحوں اور انسانی جزئیات نے اُن کے دل کو پکارا، اور ان کے لیے تصویر صرف عکس نہیں بلکہ ایک کہانی، احساس اور پیغام بن گئی۔ محمد الفالح نے فوٹوگرافی کو محض آرٹ کا اظہار نہیں سمجھا بلکہ اسے ایک بصری مکالمے کا آلہ بنایا ہے جس کے ذریعے وہ دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے انسانوں کی زندگی، رسم و رواج اور احساسات کو قید کرتے ہیں۔
محمد الفالح کا کہنا ہےمیں نے جانا کہ تصویریں صرف عکس نہیں ہوتیں، بلکہ وہ کہانی، احساس اور پیغام ہوتی ہیں۔ انہوں نے اپنے کیمرے کو ایک آلے کے طور پر استعمال کیا، جس کے ذریعے وہ دنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والے انسانوں کی زندگی کو بخوبی محسوس کر کے، ان کی کہانیاں محفوظ کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، میں روشنی کا احترام کرتا ہوں اور سچی گھڑی کا انتظار کرتا ہوں تاکہ تصویر خود بولے۔
محمد الفالح نے فوٹوگرافی کا سفر شہروں کے شور اور سیاحتی گلیمر سے ہٹ کر، ان دیہاتوں اور علاقوں کی طرف موڑ دیا جہاں زندگی سادہ اور گہری ہے۔ ان کے مطابق میرے سفر کا مقصد صرف تصویر کھینچنا نہیں تھا، بلکہ انسان کو محسوس کرنا اور اس کی کہانی کو محفوظ کرنا تھا۔ ہمالیہ کی چوٹیوں سے لے کر دور دراز دیہات تک، انہوں نے انسانی تجربات کو بے زبان مگر اثر انگیز انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی۔
فالح نے بتایا کہ مختلف اقوام کی زندگی نے ان کے اندر انسانی پختگی پیدا کی ہے۔ وہ ہر قوم میں ایک نیا حسن اور منفرد چیلنج دیکھتے ہیں۔ ان کے مطابق مسلسل سفر نے مجھے صبر کی نئی تعریف سمجھائی اور ہر پڑاؤ نے میری زندگی اور سوچ کو ایک نئی شکل دی۔
محمد الفالح نے مختلف قبائل اور دیہاتوں کے ساتھ اپنے تعلقات پر بھی روشنی ڈالی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان علاقوں میں اکثر اجنبیوں کو پسند نہیں کیا جاتا، لیکن وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں جیسے چاول، چینی یا تیل کو تحفے کے طور پر دیتے ہوئے ان کا دل جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کے مطابق، یہ ایک منصفانہ تبادلہ ہے، جس کے بدلے میں مجھے مقامی لوگوں کی زندگی کو قریب سے دیکھنے اور عکس بند کرنے کا موقع ملتا ہے۔
محمد الفالح نے ہمالیہ کے سفر کا ایک دردناک لمحہ یاد کیا، جب چھ روزہ ہائیکنگ کے دوران وہ شدید بیمار ہو گئے اور تین دن ایک نیپالی خاندان کے دیہی کمرے میں گزارے۔ وہ کہتے ہیں، یہ جسمانی طور پر تکلیف دہ لمحہ تھا، مگر روحانی طور پر یہ ایک عظیم سبق تھا کہ انسانیت کسی زبان کی محتاج نہیں۔
محمد الفالح تصویر کھینچنے سے پہلے اس علاقے میں وقت گزارتے ہیں تاکہ وہ انسانوں سے تعلق محسوس کرسکیں۔ وہ کہتے ہیں، میں کسی کو اس لیے تصویر میں نہیں قید کرتا کہ وہ مجھ سے مختلف ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ میرے جیسا ہے۔تحقیق، مقام کی جغرافیائی سمجھ، موسم اور جسمانی تیاری ہر کامیاب تصویری مہم کی بنیاد ہے۔
محمد الفالح کے مطابق، تصویر کھینچنا صرف ایک کلک کا عمل نہیں ہے، بلکہ یہ احساس، علم اور اخلاص کا امتزاج ہے۔ انکے الفاظ میں، یہ تصویر وہ نہیں جو صرف دیکھی جائے، بلکہ وہ تصویر ہے جو محسوس کی جائے