ریاض / مکہ مکرمہ :سعودی عرب کے سرکاری ہجری کلینڈر "ام القریٰ” کو رواں سال 100 برس مکمل ہو رہے ہیں، جو اسلامی دنیا میں وقت اور عبادات کے تعین کے حوالے سے ایک مستند حوالہ بن چکا ہے۔ 1347 ہجری میں بانی مملکت کنگ عبدالعزیز بن عبدالرحمن کے دور میں قائم کیے گئے اس کلینڈر نے وقت کی نظم و ترتیب اور فلکیاتی بنیادوں پر ہجری تاریخ کے تعین میں بے مثال خدمات انجام دی ہیں۔
ماہر فلکیات اور ام القریٰ کلینڈر کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کے نگران ڈاکٹر زکی المصطفی نے بتایا کہ کلینڈر کی تیاری کے ابتدائی مراحل میں گرین وچ ٹائم پر انحصار کیا جاتا تھا، لیکن جلد ہی خانہ کعبہ کو مرکز بنا کر مقامی اسلامی بنیادوں پر وقت کے تعین کا آغاز ہوا۔ یہ وہ نکتہ آغاز تھا جہاں سے ام القریٰ کلینڈر نے عالمی اسلامی پہچان حاصل کی۔
ام القریٰ کلینڈر نہ صرف نمازوں کے اوقات کے تعین کا ذریعہ ہے بلکہ اذان گھڑی، صلواتی ایپ، اور ڈیجیٹل تقاویم جیسے جدید ذرائع میں بھی اس کا استعمال عام ہے۔ یہ کلینڈر اسلامی عبادات، سرکاری تعطیلات، رمضان، حج اور عیدین کے تعین میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
ام القریٰ کلینڈر ایک قمری کیلنڈر ہے جس میں مہینوں کا تعین چاند کی گردش کے مطابق کیا جاتا ہے، جبکہ موسموں کا تعین سورج کی گردش کے لحاظ سے کیا جاتا ہے۔ اس نظام کو تیار کرنے کے لیے اسلامی فقہ، علم فلکیات اور سائنسی اصولوں کو یکجا کیا گیا ہے۔
1979 سے ام القریٰ کلینڈر کی اشاعت ریاض سے کی جانے لگی اور پھر کنگ عبدالعزیز سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سٹی (KACST) نے کلینڈر کی تیاری کے لیے ماہرینِ فلکیات اور علماء پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی کی زیرنگرانی کلینڈر کی سائنسی بنیادوں پر بہتری اور جدت کا سفر مسلسل جاری ہے۔
ام القریٰ کلینڈر پہلی بار 1927 میں مکہ مکرمہ کے سرکاری پریس سے شائع ہوا، اور آج، 100 برس بعد، یہ اسلامی دنیا کے اہم ترین اور قابلِ اعتماد تقاویم میں سے ایک بن چکا ہے۔