سعودی عرب میں تعمیراتی شعبے کو 2025 کے دوران لاگت کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے، جہاں سعودی جنرل اتھارٹی برائے شماریات کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں تعمیراتی اخراجات میں 1.1 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ اضافہ نہ صرف نئے تعمیراتی منصوبوں بلکہ موجودہ ترقیاتی سرگرمیوں پر بھی براہ راست اثر انداز ہو رہا ہے، خاص طور پر رہائشی تعمیرات کے شعبے میں۔
رپورٹ کے مطابق رہائشی شعبے کے اخراجات میں سال 2024 کے مقابلے میں 1.2 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے، جو کہ شہری اور نجی رہائشی منصوبوں کے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھا جا رہا ہے۔ اس اضافہ کی بنیادی وجوہات میں مشینری کے کرایے، افرادی قوت کی لاگت، اور توانائی کے نرخوں میں تیزی سے اضافہ شامل ہیں۔
تعمیراتی کاموں میں استعمال ہونے والی مشینری کے کرایوں میں 2.5 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس سے پروجیکٹ کی مجموعی لاگت پر واضح فرق پڑا ہے۔ اسی طرح افرادی قوت اور دیگر متعلقہ ذرائع کی لاگت میں بھی 2.5 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جو تعمیراتی صنعت میں مزدوروں، انجینیئرز اور تکنیکی عملے کی بڑھتی ہوئی طلب کو ظاہر کرتا ہے۔
رپورٹ میں توانائی کے شعبے کو ایک بڑا چیلنج قرار دیا گیا ہے، جہاں مجموعی توانائی اخراجات میں 9.9 فیصد اضافہ ہوا۔ اس میں خاص طور پر ڈیزل کی قیمت میں 27.3 فیصد کا حیران کن اضافہ شامل ہے، جو تعمیراتی مشینری، ٹرانسپورٹ اور دیگر مشینی سرگرمیوں کے لیے ایک لازمی ایندھن ہے۔
عام تعمیراتی مزدوروں اور ماہرین کی اجرتوں میں 2.4 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جو اگرچہ سماجی ترقی کے لحاظ سے مثبت اشارہ ہے، لیکن اس سے مجموعی لاگت اور بلڈنگ مارکیٹ پر اضافی دباؤ بھی پیدا ہو رہا ہے۔
ان عوامل کے باعث نئے ہاؤسنگ منصوبوں کی لاگت میں اضافہ ممکن ہے، جس سے عام شہریوں کے لیے گھر کی تعمیر یا خریداری مزید مشکل ہو سکتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہی رجحان جاری رہا تو مملکت میں جائیداد کی قیمتوں اور کرایہ جات میں بھی اضافہ متوقع ہے۔
یہ تمام اعداد و شمار اس وقت سامنے آئے ہیں جب سعودی عرب وژن 2030 کے تحت ملک بھر میں ترقیاتی اور میگا منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ ایسے میں تعمیراتی لاگت میں یہ اضافہ حکومت، سرمایہ کاروں اور عام عوام، تینوں کے لیے چیلنج بن سکتا ہے۔