سعودی وزیر برائے ماحولیات، پانی اور زراعت انجینئر عبدالرحمان الفضلی نے ایک مشترکہ سرکاری پریس بریفنگ میں مملکت میں جاری بڑے ماحولیاتی اور زرعی منصوبوں کی تفصیلات پیش کیں۔
انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب تیزی سے پائیدار ترقی اور ماحول کے تحفظ کی جانب بڑھ رہا ہے اور اس مقصد کے لیے جامع قومی حکمت عملی پر عمل کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مملکت نے پانی کے وسائل کو محفوظ بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کیے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے مختلف گنجائش کے تقریباً ایک ہزار ڈیم تعمیر کیے جا رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ پانی صاف کرنے کی گنجائش میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 2016 میں یومیہ 8.8 ملین مکعب میٹر پانی فلٹریشن کی صلاحیت تھی، جو اب دوگنی ہو کر 16.6 ملین مکعب میٹر تک پہنچ چکی ہے، جن میں سے 75 فیصد پانی سمندر سے حاصل کر کے صاف کیا جاتا ہے۔ اس شعبے میں سعودی عرب دنیا کے صفِ اول کے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔
ماحولیات کے شعبے میں کامیابیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مملکت میں پانچ بڑے ماحولیاتی مراکز قائم کیے گئے ہیں جو ماحولیات کے تحفظ اور پائیدار ترقی کے اہداف پر کام کر رہے ہیں۔ فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے 240 ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سینٹرز قائم کیے جا چکے ہیں، جبکہ چند برس پہلے ان کی تعداد بہت کم تھی۔
سعودی گرین انیشیٹیو کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اب تک 500 ہزار ہیکٹر بنجر اراضی کو قابلِ کاشت بنایا جا چکا ہے، جبکہ 151 ملین پودے کامیابی کے ساتھ لگائے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2030 تک مزید 215 ملین پودے لگانے کا ہدف حاصل کر لیا جائے گا۔
ماحولیاتی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے بھی بڑے اقدامات کیے گئے ہیں۔ ماضی میں مملکت میں صرف 18 پارک ہوا کرتے تھے، لیکن اب ان کی تعداد بڑھ کر 500 ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً 8 ہزار ایسے نایاب جانوروں کی افزائشِ نسل کے لیے فطری ماحول فراہم کیا گیا ہے جو معدومیت کے خطرے سے دوچار تھے۔
زرعی شعبے میں ہونے والی ترقی کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ مملکت نے کاشتکاروں اور ڈیری سیکٹر کے لیے 118 ارب ریال کی معاونت فراہم کی، جس کے نتیجے میں زرعی پیداوار بڑھ کر 12 ملین ٹن تک پہنچ گئی ہے۔
اس کے علاوہ کئی زرعی اور ڈیری مصنوعات میں نمایاں خود کفالت حاصل کی جا چکی ہے۔ بعض زرعی اجناس کی پیداوار میں 70 سے 100 فیصد تک خود کفالت حاصل ہو چکی ہے، جبکہ پولٹری کے شعبے میں 70 فیصد ضرورت اندرونِ ملک پوری کی جا رہی ہے۔