سعودی وزیر اطلاعات و نشریات سلمان الدوسری نے سرکاری اداروں کی مشترکہ پریس بریفنگ میں ملک میں میڈیا، ترقیاتی منصوبوں اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ہونے والی پیش رفت پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ مملکت اس وقت میڈیا کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے، جہاں توجہ محض ذرائع پر نہیں بلکہ پیغام کے مؤثر انداز میں پہنچانے پر مرکوز کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق قومی میڈیا اسٹریٹجی پر بھرپور کام جاری ہے اور اسے جلد باضابطہ طور پر متعارف کرایا جائے گا، تاکہ سعودی میڈیا جدید تقاضوں اور عالمی معیار کے مطابق ترقی کرسکے۔
سلمان الدوسری نے بتایا کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی زیر سرپرستی سعودی میڈیا فورم کے انعقاد کی تیاریاں جاری ہیں۔ یہ فورم مستقبل کے میڈیا ٹولز اور عالمی سطح پر جدید رجحانات کے ساتھ ہم آہنگ ایک اہم پلیٹ فارم ثابت ہوگا، جہاں مختلف ممالک کے ماہرینِ ابلاغ اپنے خیالات اور تجربات کا تبادلہ کریں گے۔
انہوں نے وژن 2030 کو محض ایک ہدفی تاریخ کے بجائے لامحدود خوابوں اور امنگوں کی علامت قرار دیا۔ ان کے مطابق سعودی عرب میں خواب صرف بیان نہیں کیے جاتے بلکہ عملی منصوبہ بندی کے ذریعے انہیں حقیقت کا روپ دیا جاتا ہے۔
وزیر اطلاعات نے شاہ سلمان ہیومینیٹیرین ایڈ اینڈ ریلیف سینٹر کے ذریعے دنیا بھر میں جاری امدادی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اب صرف وقتی امداد فراہم کرنے والا ملک نہیں رہا بلکہ اپنے منصوبوں کو پائیدار انسانی نظام میں بدل رہا ہے۔ اس مرکز کے ذریعے 108 ممالک میں 3500 سے زائد ترقیاتی منصوبوں پر 30 ارب ریال سے زیادہ کی امداد فراہم کی جا چکی ہے۔
یمن میں سعودی ترقیاتی پروگرام کے تحت 4.27 ارب ریال سے زیادہ لاگت کے 265 سے زائد منصوبے مکمل کیے گئے ہیں۔ ان منصوبوں میں سڑکوں کی تعمیر، پینے کے پانی کی فراہمی، صحت اور تعلیم کے شعبے شامل ہیں۔ مزید یہ کہ طبی رضاکارانہ پروگراموں کے تحت 2 لاکھ 30 ہزار سے زائد جراحی کے آپریشنز کیے جا چکے ہیں، جو مملکت کی انسانیت دوست پالیسی کا ثبوت ہیں۔
ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل معیشت میں ہونے والی ترقی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 2024 میں سعودی عرب کی ڈیجیٹل اکانومی 495 ارب ریال تک پہنچ چکی ہے، جو مملکت کے مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں 15 فیصد حصہ ڈالتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سال 2020 میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں صرف دو رجسٹرڈ کمپنیاں تھیں، جبکہ اب ان کی تعداد بڑھ کر 23 ہو چکی ہے۔
سلمان الدوسری نے زور دیا کہ سعودی عرب اب صرف ٹیکنالوجی کا صارف نہیں رہا بلکہ اس کی تیاری اور تخلیق میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہا ہے، جو مملکت کی بڑھتی ہوئی استعداد اور وژن 2030 کے اہداف کی کامیابی کی علامت ہے۔