مشرق وسطیٰ کے امن و استحکام کو لاحق بڑھتے ہوئے خطرات کے تناظر میں سعودی عرب اور اردن نے ایک مرتبہ پھر مسجد الاقصیٰ کے تقدس کی پامالی پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیلی اقدامات کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ دونوں ممالک نے اسرائیل کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وزیر برائے قومی سلامتی، اتمار بن گویر کی جانب سے مسجد الاقصیٰ کمپاؤنڈ میں داخل ہو کر نماز ادا کرنے کی کوشش کو نہ صرف اشتعال انگیزی بلکہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
سعودی وزارت خارجہ نے ایک جامع بیان جاری کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر کی اس اشتعال انگیز حرکت کو ناقابل قبول قرار دیا، اور کہا کہ ان جیسے اقدامات نہ صرف مذہبی مقدسات کی حرمت کے منافی ہیں بلکہ پورے خطے میں تناؤ اور کشیدگی کو مزید ہوا دیتے ہیں۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اسرائیلی قبضہ حکومت کے اہلکاروں کی جانب سے بار بار اس نوعیت کی حرکات، مملکت سعودی عرب کے لیے ناقابل قبول ہیں اور ان کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی جاتی ہے۔
مسجد الاقصیٰ، جو بیت المقدس کے قلب میں واقع ایک نہایت مقدس مقام ہے، تاریخی معاہدوں کے تحت اردنی مذہبی اوقاف کے تحت آتی ہے، اور موجودہ سٹیٹس کو کے مطابق یہودی زائرین کو وہاں صرف حاضری کی اجازت ہے، عبادت کی نہیں۔ اتمار بن گویر کی جانب سے اس اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے وہاں نماز کی ادائیگی کی کوشش، اسرائیل کی جانب سے موجودہ عالمی اتفاقِ رائے کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔
سعودی عرب نے اپنے بیان میں عالمی برادری کو ایک بار پھر مخاطب کرتے ہوئے زور دیا کہ وہ اسرائیلی حکومت اور اس کے اہلکاروں کو اس طرح کی اشتعال انگیز اور غیر قانونی کارروائیوں سے روکنے کے لیے فوری، مؤثر اور سخت اقدامات کرے۔ مملکت کا کہنا ہے کہ ایسی خلاف ورزیاں نہ صرف بین الاقوامی ضابطوں کے خلاف ہیں بلکہ ان سے خطے میں قیام امن کی تمام کوششیں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
دوسری طرف اردن کی وزارت خارجہ نے بھی اسرائیلی وزیر کی اس حرکت پر سخت ردعمل دیا ہے۔ وزارت کے ترجمان، سفیر سفیان القضاہ نے بیان میں واضح کیا کہ اسرائیلی وزیر کی مسلسل اشتعال انگیز دراندازیاں اور اسرائیلی پولیس کی جانب سے یہودی آبادکاروں کو بار بار مسجد الاقصیٰ میں داخل ہونے کی سہولت دینا، اردن کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ ان کے مطابق یہ تمام اقدامات مسجد کی تاریخی اور قانونی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ معلوم ہوتے ہیں، جو نہ صرف مسجد کے تقدس کو پامال کرتے ہیں بلکہ اس کی زمانی و مکانی وحدت کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ اسرائیل کو مسجد الاقصیٰ پر کسی قسم کی خودمختاری حاصل نہیں ہے اور اس کی طرف سے کیا جانے والا کوئی بھی اقدام بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں ناجائز اور غیر قانونی تصور کیا جائے گا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ان اقدامات کے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں، جو نہ صرف یروشلم بلکہ پورے فلسطینی علاقوں میں کشیدگی کو بڑھا سکتے ہیں، خاص طور پر مقبوضہ مغربی کنارے میں جہاں پہلے ہی اسرائیلی اقدامات کی وجہ سے حالات انتہائی نازک ہو چکے ہیں۔
اردن اور سعودی عرب نے یک زبان ہو کر اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے مقدس مقامات پر اس قسم کی اشتعال انگیزی صرف داخلی سیاسی مفادات کو بڑھانے کے لیے کی جا رہی ہے، جس کا خمیازہ پورے خطے کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔