ریاض :آج کے فیشن کی دنیا میں لباس کا انتخاب صرف دلکش نظر آنے یا آرام دہ ہونے تک محدود نہیں رہا، بلکہ قیمت، پائیداری اور ماحولیاتی ذمہ داری جیسے اہم عوامل نے اسے ایک سنجیدہ فیصلہ بنا دیا ہے۔ سعودی عرب میں، جہاں ٹیکسٹائل انڈسٹری تیزی سے ترقی کر رہی ہے، مصنوعی اور آرگینک کپڑوں کے درمیان یہ بحث پہلے سے کہیں زیادہ شدید ہو چکی ہے۔
ریاض میں بن غیث ٹیکسٹائلز کے مالک حسن الغیث، جو تین نسلوں سے اس کاروبار کو کامیابی سے چلا رہے ہیں، قدرتی کپڑوں کے دلدادہ ہیں۔
وہ بتاتے ہیں ،مجھے لینن، کپاس، ریشم، اون اور چمڑے جیسے قدرتی مواد سے بنی اشیا پسند ہیں۔ میں چاہتا ہوں یہ کپڑے صرف میوزیم میں نہ پڑے رہیں بلکہ روزمرہ زندگی میں استعمال ہوں۔
ان کا کہنا ہے کہ مصنوعی ریشے، جو تیل صاف کرنے کے عمل سے بنتے ہیں، ہمارے آبا و اجداد کے لیے اجنبی تھے لیکن اب یہ ٹیکسٹائل کی دنیا کا بڑا حصہ بن چکے ہیں، خاص طور پر مردانہ ملبوسات اور طبی لباس میں۔
انسان نے سب سے پہلا پلاسٹک 1889 میں بنایا،سیلولوئیڈ جو فلم سازی میں استعمال ہوتا تھا۔ اس کے بعد نائیلون، پولی ایسٹر اور ایکریلیک نے لباس کی دنیا بدل دی۔ یہ کپڑے آگ سے کم متاثر ہوتے ہیں، پانی روک سکتے ہیں، اور طویل عرصے تک اپنا معیار برقرار رکھتے ہیں۔
قیمت میں بھی فرق نمایاں ہےایک کوالٹی پولی ایسٹر1 سے 3 ڈالر فی گزجبکہ دوسری قدرتی کپاس 6 سے 12 ڈالر فی گزمیں دستیاب ہے،سستے ہونے کے باوجود مصنوعی کپڑوں کے ماحولیاتی نقصانات پوشیدہ اور دیرپا ہوتے ہیں۔ اسی لیے سعودی اسٹینڈرڈز، میٹرولوجی اینڈ کوالٹی آرگنائزیشن ان کے لیےسخت اصول وضع کررہی ہے۔
سعودی عرب کے وژن 2030 کے تحت ماحول دوست پیداوار اور پائیدار فیشن پر زور بڑھ رہا ہے۔ خریدار اب قدرتی کپڑوں کی طرف زیادہ مائل ہیں، لیکن یہاں بھی چیلنجز ہیں۔مثلاً آرگینک کاٹن ماحول دوست ضرور ہے مگر پانی کی بہت زیادہ کھپت کرتا ہےایک کلو کپاس کے لیے تقریباً 10 ہزار لٹر پانی درکار ہوتا ہے۔ ایسے ملک میں جہاں پانی قیمتی ترین وسائل میں سے ایک ہے، یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔
حسن الغیث اعتراف کرتے ہیں کہ کپڑوں کا فضلہ ماحول کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ مصنوعی کپڑے سیکڑوں بار دھونے کے بعد بھی نئے لگتے ہیں، لیکن ان کے گلنے سڑنے میں دہائیاں لگ سکتی ہیں۔اس کے برعکس، آرگینک کپڑے آسانی سے تحلیل ہو جاتے ہیں مگر جلد خراب ہو جاتے ہیں، اس لیے پائیداری میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
مارکیٹ میں اب ہائبرڈ کپڑے بھی متعارف ہو رہے ہیں جو مصنوعی اور قدرتی ریشوں کو ملا کر بنائے جاتے ہیں تاکہ پائیداری اور ماحولیات کے درمیان توازن پیدا کیا جا سکے۔ تاہم ماہرین کے مطابق اس میں بھی ماحولیاتی چیلنج برقرار رہتا ہے۔
امواج السطان ویوز ایریا ون کی مالک، جو مکمل طور پر پولی ایسٹر سے پاک لباس تیار کرتی ہیں، کہتی ہیں، پولی ایسٹر سے تنگ آ کر میں نے اپنا خود کا ماحول دوست کپڑا تیار کرنا شروع کیا ہے