العُلا:سعودی عرب کے تاریخی شہر العُلا میں، رائل کمیشن ایک ایسا انقلابی منصوبہ جاری رکھے ہوئے ہے جو ماحولیاتی تحفظ اور زرعی پائیداری دونوں کو یکجا کرتا ہے۔ اس منصوبے میں کیمیائی اجزا اور جراثیم کش ادویات سے پاک نامیاتی کھاد تیار کی جا رہی ہے، جس کا بنیادی خام مال کھجور کی باقیات اور دیگر ضائع شدہ نامیاتی مواد ہے۔
اس منصوبے کا مقصد مٹی کی زرخیزی بڑھانا، زرعی پیداوار بہتر بنانا اور فضول زرعی مواد کو جلانے سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی نقصان کو کم کرنا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق، اب تک 50 ہزار سے زائد کیوبک میٹر ضائع شدہ نامیاتی مواد کو ری سائیکل کر کے اعلیٰ معیار کی کھاد میں تبدیل کیا جا چکا ہے، جو 1300 سے زائد کاشتکاروں میں تقسیم ہو چکی ہے، جبکہ 3000 مزید کسانوں کو اس سے فائدہ پہنچنے کی توقع ہے۔
منصوبے کے تحت 3000 ہیکٹر سے زیادہ بیکار یا انحطاط زدہ زرعی زمین کو دوبارہ قابلِ کاشت بنایا گیا ہے۔ یہ کاوش، العُلا کے وسیع تر زرعی انفراسٹرکچر کی ترقی کی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد خطے میں طویل مدتی غذائی تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔
تیار کی جانے والی کھاد میں 52 فیصد خالص نامیاتی مواد شامل ہے، جو مٹی کی زرخیزی میں نمایاں اضافہ کرتا ہے اور زمین کی پانی محفوظ رکھنے کی صلاحیت کو بہتر بناتا ہے۔
اس منصوبے کے نتیجے میں کیمیائی کھاد کے استعمال میں 30 فیصد کمی، پانی کے استعمال میں نمایاں بچت جبکہ ہر ٹن کھاد سے 0.57 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کمی جو سالانہ 6300 گاڑیوں کے اخراج کے برابر ہے
رائل کمیشن نے کاشتکاروں اور طلبہ کے لیے تربیتی پروگرام بھی شروع کیے ہیں، جن میں 240 افراد نے شرکت کی۔ ان ورکشاپس میں نامیاتی کھاد کے استعمال کے جدید اور مؤثر طریقے سکھائے گئے، تاکہ کسان پائیدار اور ماحولیاتی لحاظ سے محفوظ زراعت کی طرف منتقل ہو سکیں۔
یہ منصوبہ نہ صرف فضول مواد کو قیمتی معاشی وسائل میں بدل رہا ہے بلکہ غذائی تحفظ، مٹی کی صحت اور زرعی شعبے کی طویل مدتی پائیداری کو بھی فروغ دے رہا ہے۔ العُلا، اپنی قدیم وراثت کے ساتھ اب جدید پائیدار زراعت کا بھی نیا مرکز بنتا جا رہا ہے۔