سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور فلسطینی صدر محمود عباس کے درمیان ایک اہم ٹیلی فونک گفتگو ہوئی، جس میں خطے کی موجودہ صورتِ حال اور فلسطینی عوام کو درپیش سنگین چیلنجوں پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ یہ رابطہ نہ صرف حالیہ واقعات کے پس منظر میں اہمیت رکھتا ہے بلکہ آئندہ ہفتوں میں ہونے والے بین الاقوامی اقدامات کے تناظر میں بھی غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔
گفتگو کے دوران غزہ کی پٹی میں جاری کشیدہ صورتحال، وہاں کے انسانی بحران اور سکیورٹی خدشات پر خصوصی توجہ دی گئی۔ سعودی ولی عہد نے واضح اور دوٹوک انداز میں فلسطینی عوام کے خلاف جاری مظالم اور جرائم کی مذمت کی، اور عالمی برادری کو یاد دہانی کرائی کہ شہری آبادی کے تحفظ اور انسانی مصائب کو کم کرنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں۔
صدر محمود عباس نے اس موقع پر سعودی قیادت، بالخصوص خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان کی ان سفارتی کوششوں کو سراہا جن کے نتیجے میں دنیا کے متعدد ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ وفا نیوز ایجنسی کے مطابق، صدر عباس نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سعودی عرب نے 1967 کی مشرقِ وسطیٰ جنگ سے قبل کی سرحدوں پر مبنی دو ریاستی حل کی حمایت اور مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے لیے عالمی رائے ہموار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
اس مکالمے میں 22 ستمبر کو نیویارک میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی امن کانفرنس کی تیاریوں پر بھی غور کیا گیا۔ یہ کانفرنس ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب فرانس، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور سنگاپور سمیت کئی اہم ممالک فلسطینی ریاست کو باضابطہ تسلیم کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ رواں سال جولائی میں سعودی عرب اور فرانس نے اقوام متحدہ میں دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے ایک اعلیٰ سطحی عالمی کانفرنس کی مشترکہ صدارت کی تھی، جو اس معاملے میں ایک بڑی سفارتی پیش رفت سمجھی جاتی ہے۔
مکالمے کا اختتام اس عزم کے اعادے پر ہوا کہ سعودی عرب اور فلسطینی قیادت مل کر ایسے اقدامات جاری رکھیں گے جو خطے میں دیرپا امن کے قیام، انسانی بحران کے خاتمے اور فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کی ضمانت فراہم کریں۔