سعودی فنکار زیاد السعدی، جنہیں لوگ "زیزو” کے نام سے جانتے ہیں، ایک منفرد شخصیت ہیں جو سعودی موسیقی کی دنیا میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی داستان صرف موسیقی تک محدود نہیں ہے؛ وہ ایک ماہر بایولوجسٹ بھی ہیں۔ مالیکیولر اور سیلولر بائیولوجی کے شعبے میں ان کی مہارت کے باوجود، انہوں نے موسیقی کو اپنے جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ ان کے مطابق، "موسیقی میرے لیے ہمیشہ فکر و تشویش سے نجات کا ذریعہ رہی ہے۔ وہ بات جو میں لفظوں میں نہیں کہہ سکتا، موسیقی ان کا اظہار بن جاتی ہے۔
زیاد السعدی کی موسیقی کی دنیا میں قدم رکھنا ایک دلچسپ اور نیا سفر تھا۔ سعودی عرب میں پیدا ہونے والے اور بعد میں امریکی ریاست ایریزونا منتقل ہونے والے زیاد کا کہنا ہے کہ امریکہ میں رہ کر میں نے دنیا کو ایک نئے ڈھنگ سے دیکھا لیکن سعودی عرب میں میری جڑیں اب بھی بہت مضبوط ہیں۔ اگرچہ انہوں نے 12 سال تک امریکی ثقافت میں وقت گزارا، لیکن وہ ہمیشہ اپنی سعودی ثقافت سے جڑے رہے۔
ان کی زندگی میں 2005 میں ایک اہم تبدیلی آئی، جب ان کے ایک ہم جماعت نے انہیں عراق آ کر ایک سٹوڈیو میں ریکارڈنگ کی دعوت دی۔ اس دن سے ان کی موسیقی کے سفر کا آغاز ہوا اور وہ جلد ہی اپنے پہلے گانے کو ریکارڈ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کی موسیقی کی طرف کشش کا آغاز 1998 میں ہوا تھا، جب انہوں نے راکیم، ایمی نیم اور ناس جیسے موسیقی کے عظیم فنکاروں کی تخلیقات سے متاثر ہو کر اپنی آواز کو پہچانا۔
زیاد السعدی کو سعودی عرب میں مغربی موسیقی کی صنف "رے پ” کے فروغ میں مشکلات کا سامنا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ جب لوگ سعودی کا لفظ سنتے ہیں تو اچھا ہونا تو ایک طرف، وہ یہ بھی نہیں سمجھ سکتے کہ ایک سعودی یہ کام کر بھی سکتا ہے۔”تاہم، ان کا ماننا ہے کہ سعودی عرب میں موسیقی کے منظر نامے میں امکانات کی وسیع جگہ ہے اور لوگ اس کے لیے بے چین ہیں۔
انہوں نے موسیقی کی طاقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ "موسیقی میں وہ طاقت ہے کہ یہ ہر رکاوٹ کو عبور کر سکتی ہے۔ زبان مختلف ہو تو ہو، پس منظر بھلے دوسرا ہو، قومیت کوئی بھی ہو۔ جب آپ اپنی تخلیق میں مخلص ہوں گے تو لوگ آپ کے ساتھ جُڑ جائیں گے۔”
سوشل میڈیا نے ان کے لیے ایک نیا دروازہ کھولا ہے، جہاں وہ دنیا بھر میں اپنے پیغام کو پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق، ان پلیٹ فارمز نے میرے جیسے فنکاروں کی زندگی بدل دی ہے۔ ہو سکتا ہے آج میں سوشل پلیٹ فارم پر کوئی شعر گا کر سنا دوں، اور کل اِسی شعر کو کوئی برازیل میں سُن رہا ہو۔
زیاد السعدی کا عالمی سطح پر اثر اور ان کی موسیقی نے ان کے لیے کئی غیر متوقع لمحے پیدا کیے ہیں، خاص طور پر جب ایک مرتبہ ریاض ایئرپورٹ پر امریکی پرستاروں نے انہیں پہچان لیا۔ ان کے مطابق وہ لوگ میری موسیقی سے واقف تھے اور میرے کلچر کے بارے میں مزید جاننا چاہتے تھے۔ ہمارے درمیان بہت بامعنی بات چیت ہوئی اور ان میں سے کئی امریکی میرے دوست بن گئے۔
مستقبل میں ان کا ارادہ ہے کہ وہ سعودی فنکاروں کی اگلی نسل کے لیے دروازے کھولیں اور سعودی عرب کو عالمی موسیقی کے منظر نامے پر ایک اہم مقام دلائیں۔ "سعودی ہونا مجھے محدود نہیں کرتا بلکہ اس سے مجھے قوت ملتی ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بہت کچھ شیئر کر سکتے ہیں اور مجھے یہ سوچ کر لطف آ رہا ہے کہ یہ سفر ہمیں کہاں تک لے کر جائے گا۔