بحرین میں جاری تیسرے ایشیائی یوتھ گیمز میں سعودی عرب کے کم عمر کھلاڑیوں کی شاندار کارکردگی نے ملک کے تمغوں کی تعداد کو 14 تک پہنچا دیا ہے۔ مختلف کھیلوں میں نمایاں کارکردگی نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ مملکت نے نوجوان کھلاڑیوں کی تربیت اور عالمی سطح پر ان کے معیار کو بلند کرنے کے لیے جو سرمایہ کاری کی ہے، وہ اب نمایاں نتائج دینا شروع کر چکی ہے۔ سعودی ایتھلیٹس نے نہ صرف روایتی کھیلوں جیسے اونٹ دوڑ میں اعزاز حاصل کیا بلکہ ویٹ لفٹنگ، ٹیبل ٹینس، ای اسپورٹس، تیراکی، ریسلنگ اور ہینڈ بال جیسے جدید اور عالمی کھیلوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
دن کی پہلی بڑی کامیابی روایتی اور صحرائی کھیل اونٹ دوڑ کے میدان سے سامنے آئی، جہاں نوجوان سعودی رائڈر وسمی البلوی نے انفرادی مقابلے میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ یہ مقابلہ 13 ایشیائی ممالک کے کھلاڑیوں کے درمیان ہوا، جس میں متحدہ عرب امارات کے کھلاڑیوں نے طلائی اور نقرئی تمغے جیتے جبکہ سعودی عرب نے تیسری پوزیشن حاصل کر کے اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا۔ یہ کامیابی اس لیے بھی اہم ہے کہ اونٹ دوڑ پہلی مرتبہ ایشیائی یوتھ گیمز کا حصہ بنی، جس نے سعودی عرب کو اپنی ثقافتی پہچان سے جڑے کھیل میں عالمی سطح پر خود کو منوانے کا موقع فراہم کیا۔
اسی روز ایک اور سعودی نوجوان کھلاڑی عبد اللہ المحیمد نے ویٹ لفٹنگ میں 65 کلوگرام کیٹیگری میں زبردست کارکردگی دکھاتے ہوئے 122 کلوگرام وزن اٹھا کر کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ ان کی کارکردگی نے نہ صرف ان کی ذاتی مہارت کو ثابت کیا بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ سعودی عرب اب طاقت اور برداشت پر مبنی کھیلوں میں بھی ایشیائی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو چکا ہے۔ اس کامیابی کے بعد مملکت کے مجموعی تمغوں کی تعداد 14 ہوگئی، جن میں 3 طلائی، 4 نقرئی اور 7 کانسی کے تمغے شامل ہیں۔ یہ مجموعہ سعودی عرب کو ان ممالک کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے جنہوں نے بحرین میں بہترین مجموعی کارکردگی دکھائی ہے۔
ڈیجیٹل گیمز یا ای اسپورٹس کے میدان میں بھی سعودی کھلاڑیوں نے غیر معمولی کارکردگی دکھائی۔ اسٹریٹ فائٹر 6 کے مقابلے میں سعودی کھلاڑی فیصل النفیسی اور طلال راجخان دونوں نے اپنے اپنے گروپ سے کامیابی کے ساتھ کوارٹر فائنل تک رسائی حاصل کر لی۔ فیصل النفیسی نے منگولیا، کرغزستان اور تھائی لینڈ کے خلاف 2-0 سے کامیابیاں حاصل کیں جبکہ ہانگ کانگ اور چائنیز تائپے کے خلاف شکست کھائی۔ دوسری جانب طلال راجخان نے اردن اور سری لنکا کو 2-0 سے ہرایا مگر چائنیز تائپے اور متحدہ عرب امارات کے خلاف انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب دونوں کھلاڑی آپس میں کوارٹر فائنل میں مدِمقابل ہوں گے، جس سے کم از کم ایک سعودی کھلاڑی کے سیمی فائنل تک پہنچنے کی ضمانت ہو گئی ہے۔ یہ کامیابی سعودی ای اسپورٹس فیڈریشن کے تحت ملک میں تیزی سے ترقی پاتے ڈیجیٹل کھیلوں کے منظرنامے کا ثبوت ہے۔
ٹیبل ٹینس میں بھی سعودی نوجوانوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ عبدالرحمن الطاہر، نہال القحطانی اور سعود الطاہر نے اپنے دوسرے راؤنڈ کے سنگلز میچز میں شاندار 3-0 سے کامیابیاں حاصل کیں۔ سعود الطاہر نے یمن کے وسام بخاہ کو شکست دی، نہال القحطانی نے کمبوڈیا کے سوکون کو مات دی، اور عبدالرحمن الطاہر نے لبنان کے رامز الدکدوقی کو زیر کیا۔ اگلے مرحلے میں نہال القحطانی کا مقابلہ چین کے یو ہیئی سے ہوگا جبکہ عبدالرحمن الطاہر لبنان کے مشیل ابی نادر کے خلاف میدان میں اتریں گے۔ سعود الطاہر براہِ راست تیسرے راؤنڈ میں پہنچ گئے ہیں۔
ٹیم کھیلوں میں سعودی ہینڈ بال ٹیم اس وقت تاریخ رقم کرنے کے قریب ہے۔ 2009 میں ایشیائی یوتھ گیمز کے آغاز سے لے کر اب تک کوئی سعودی ہینڈ بال ٹیم فائنل تک نہیں پہنچی، مگر اس بار امکانات بہت روشن ہیں۔ سعودی ٹیم نے گروپ مرحلے میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں، جن میں ہانگ کانگ کے خلاف 43-16 سے ایک بڑی جیت بھی شامل ہے۔ اب ٹیم منگل کے روز شام 5 بجے چین کے خلاف سیمی فائنل میں اترے گی۔ اگر سعودی ٹیم یہ میچ جیتنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ ملک کی یوتھ ہینڈ بال تاریخ کا پہلا فائنل ہوگا۔
تیراکی کے مقابلوں میں سعودی کھلاڑی منگل کے روز پانچ مختلف ایونٹس میں حصہ لے رہے ہیں جن میں 100 میٹر فری اسٹائل، 200 میٹر بریسٹ اسٹروک، 50 میٹر بیک اسٹروک، 50 میٹر بٹر فلائی اور 4×100 میٹر میڈلے ریلے شامل ہیں۔ یہ تمام ایونٹس نوجوان تیراکوں کی برداشت اور تکنیکی مہارت کا امتحان ہیں، جو ملک کے تربیتی پروگراموں کے تسلسل کی عکاسی کرتے ہیں۔
ریسلنگ میں بھی سعودی کھلاڑی سعد الصبیعی اپنی مہم کا آغاز کر رہے ہیں۔ وہ 48 کلوگرام کیٹیگری میں یمن کے نمائندے کے خلاف منگل کی صبح 10:30 بجے میدان میں اتریں گے۔ کوچنگ ٹیم کو امید ہے کہ وہ نہ صرف اپنا پہلا میچ جیتیں گے بلکہ ملک کے لیے نئی تاریخ رقم کریں گے۔
ان تمام کامیابیوں کے پس منظر میں سعودی وزارتِ کھیل اور سعودی اولمپک و پیرا اولمپک کمیٹی کے طویل المدتی منصوبے کارفرما ہیں۔ مملکت نے جس طرح کھیلوں کے دائرہ کار کو وسعت دی ہے — روایتی کھیلوں سے لے کر ای اسپورٹس جیسے جدید میدانوں تک — وہ ایک متوازن اور مستقبل پر مبنی حکمتِ عملی کی عکاسی کرتا ہے۔
تیسرے ایشیائی یوتھ گیمز میں 40 سے زائد ایشیائی ممالک کے ہزاروں کھلاڑی شریک ہیں، جو مستقبل کے اولمپک ستارے بننے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ سعودی عرب کے لیے ہر تمغہ، ہر فتح اور ہر نئی پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک اپنے نوجوانوں پر اعتماد کر رہا ہے — ایسے نوجوان جو روایت اور جدت دونوں کو ساتھ لے کر عالمی کھیلوں کے نقشے پر مملکت کا نام مزید روشن کر رہے ہیں۔
