کل ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر عباس عراقجی نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ دفتر خارجہ میں ایرانی وزیر خارجہ کا استقبال سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کیا۔ بعد ازاں ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے وفد کے ہمراہ سعودی ولی عہد سے بھی ملاقات کی۔
عرب مبصرین اس ملاقات کو اہم قرار دے رہے ہیں، سعودی ولی عہد کے ساتھ ایرانی وزیر خارجہ نے کھل کر باتیں کیں، بہت سے اعترافات کیے اور بہت سے مطالبات بھی۔
خبر یہ ہے کہ ایران خطے سے اپنی پراکسیاں سرینڈر کرنا چاہ رہا ہے۔ ذرائع نے تو یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ ایران آئندہ کے لیے مکمل طور پر پُرامن تعلقات کا خواہاں ہے۔
دوسری طرف عرب ممالک نے بھی یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ خطے میں امن کے لیے ایرانی ہراکسیوں کو ختم کیاجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی ہم مسلک شامی حکمران بشار الاسد نے واضح طور پر ایرانی ملیشیات کو شام سےنکل جانے کا کہہ دیا ہے۔
عراق نے بھی بیرونی جارحیت یا اسرائیلی حملوں سے بچنے کے لیے حشد شعبی سے معذرت کرلی ہے۔ حزب اللہ بھی اسرائیل کےساتھ مذاکرات کے لیےتیار ہوگئی ہے۔
سب چاہتے ہیں کہ سعودی عرب آگے بڑھے اور قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرے، اب دیکھنا یہ ہے کہ سعودی قیادت اس سلسلے میں کیا کردار ادا کرتی ہے۔
7 اکتوبر کے حملے سے پہلے بھی سعودی عرب، عالمی طاقتوں کو اس بات پر راضی کرچکا تھا کہ مسئلہ فلسطین کو حل کیا جائے۔
لیکن خطے کی کچھ مخفی قوتوں نے ایرانی ایما پر 7 اکتوبر کر کے سعودی عرب کو یہ پیغام دیا تھا کہ ہم آپ کے کیے ہوئے فیصلے قبول نہیں کرتے۔
آج پورے ایک سال بعد 42،000 فلسطینی شہید کروا کے ایرانی قیادت ایک بار پھر سعودی قیادت کے سامنے بیٹھی ہے اور زبان حال سے کہہ رہی ہے کہ ہم آپ کے فیصلے قبول کرتے ہیں۔