برطانوی حکومت کی نئی پالیسی کے مطابق برطانیہ کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں پناہ لینے اور ویزے کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی قیام کرنے غیر ملکیوں کے لیے ویزا درخواستوں پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے ۔
برطانوی اخبار دی ٹائمز رپورٹ کے مطابق پاکستان، نائجیریا اور سری لنکا جیسے ممالک کے شہریوں کے لیے اسٹڈی یا ورک ویزا لے کر آنا مشکل ہو سکتا ہے ۔حکام کا ماننا ہے کہ ذیادہ مسئلہ اُن افراد کا ہے جو قانونی طور پر ورک یا اسٹڈی ویزا پر آ کر بعد میں پناہ کی درخواست دے دیتے ہیں اور ان کی درخواست منظور ہو جائے تو وہ برطانیہ میں مقیم رہ سکتے ہیں ۔
البتہ اس بات کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا کہ کون سی قومیتوں کے افراد اپنے ویزے کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی برطانیہ میں قیام کرتے ہیں کیونکہ برطانوی وزارت داخلہ نے 2020 کے بعد سے ویزا ہولڈرز کے ملک سے نکلنے کے اعدادو شمار شائع نہیں کیے۔
برطانیہ چھوڑنے والے زیادہ تر افراد کا ریکارڈ بھی رکھا جاتا ہے،اس لیے اس بات کا اندزہ بھی لگایا جا سکتا کہ و ہ ابھی تک ملک میں ہی رہ رہے ہیں یا نہیں۔
جب کوئی اسٹوڈینٹ برطانیہ آتا ہے تو فوراً ہی اپنا اسٹیٹس پناہ گزین میں تبدیل کر لیتا ہے تو یہ ملک کے سسٹم کے ساتھ زیادتی ہے اور برطانوی حکومت اس کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے ۔گزشتہ سال وزیر اعظم بننے کا بعد کیئر سٹارمر نے قانونی وغیر قانونی، دونوں قسم کی امیگریشن کو کم کرنے کا ارادہ کیا لیکن اس کا کوئی بھی ہدف مقرر کرنے سے گریز کیا ۔ کیونکہ اُن کا کہنا ہے کہ ماضی میں کسی قسم کی حد مقرر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔
کیئر سٹارمرنے سابق کنزرویٹو حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے نیٹ امیگریشن کی شرح کم کرنے میں غلطی سے نہیں بلکہ دانستہ طور پر ناکامی دکھائی۔
نیٹ امیگریشن یعنی برطانیہ آنے والوں میں سے ملک چھوڑنے والوں کی تعداد نکالنے کےبعد باقی رہنے والوں کی تعداد جون 2023 تک کے ایک سال میں 9 لاکھ 6ہزار ریکارڈ تھا جو جون 2024 تک کم ہو کر سات لاکھ 28 ہزار ہو گئی ہے۔