واشنگٹن/اسلام آباد/نئی دہلی :امریکا نے ایران کی پیٹرولیم اور پیٹروکیمیکل مصنوعات کی فروخت و ترسیل میں مبینہ طور پر ملوث چھ بین الاقوامی کمپنیوں اور متعدد بحری جہازوں پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس تازہ اقدام کی خاص بات یہ ہے کہ نشانہ بننے والی کمپنیوں میں بھارت اور پاکستان میں قائم ادارے بھی شامل ہیں، جو بظاہر ایران کو پابندیوں سے بچاتے ہوئے اس کی تیل برآمدی مہم میں معاونت کر رہے تھے۔
امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ خزانہ کے ماتحت آفس آف فارن ایسٹس کنٹرول (OFAC) نے ایک بیان میں بتایا کہ یہ پابندیاں ان کمپنیوں اور ان کے نیٹ ورکس پر لگائی گئی ہیں، جو ایرانی تیل اور پیٹروکیمیکل مصنوعات کی خاموش منتقلی اور فروخت میں ملوث پائے گئے۔ یہ عمل امریکا کی ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کا حصہ ہے، جو سابق صدر ٹرمپ کے دور سے جاری ہے اور موجودہ حکومت کی جانب سے بھی بدستور اپنائی جا رہی ہے۔
امریکی اقدامات کی زد میں آنے والی کمپنیوں میں بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں قائم ‘ایس اے آئی صبوری کنسلٹنگ سروسز’ بھی شامل ہے، جو دو ایل پی جی ٹینکروں ’بیٹیلیور‘ اور ’نیل‘ کی کمرشل مینجمنٹ کرتی تھی۔ ان ٹینکروں نے 2022 میں ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کی ترسیل کی، جنہیں ایران کی ایک پرانی بلیک لسٹڈ کمپنی ’الائنس انرجی‘ کے لیے استعمال کیا گیا۔
اسی طرح پاکستان کے شہر لاہور میں رجسٹرڈ ‘الائنس انرجی پرائیویٹ لمیٹڈ’ پر بھی ایک بار پھر پابندی عائد کی گئی ہے۔ اس کمپنی پر پہلے بھی ایران کے ساتھ تیل کی تجارت کے الزامات کے تحت امریکی پابندیاں لگ چکی ہیں۔
یہ پابندیاں ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکا اور اسرائیل کے حملوں کے کچھ ہفتے بعد عالمی ماحول پہلے ہی کشیدہ ہے۔ واشنگٹن اب تہران کے لیے مالیاتی ذرائع بند کرنے کے لیے ایک نئی معاشی صف بندی اختیار کر رہا ہے، جس میں خلیجی، ایشیائی اور لاطینی امریکی کمپنیوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
امریکی وزیرِ خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہم ایران کی غیر مستحکم سرگرمیوں کو ایندھن فراہم کرنے والے مالی ذرائع کو ختم کرنے کے لیے بھرپور کوشش جاری رکھیں گے، اور ایسے تمام نیٹ ورکس کو بے نقاب کریں گے جو ایران کو پابندیوں سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
پابندیوں کی زد میں آنے والے نیٹ ورک میں صرف بھارت اور پاکستان ہی نہیں بلکہ متحدہ عرب امارات، پاناما اور ایران میں قائم کمپنیوں کے زیرِ انتظام بحری جہاز بھی شامل ہیں، جو ایران کی معاشی بقا کی ایک غیر رسمی سپورٹ لائن سمجھے جا رہے تھے۔