ابوظہبی میں ایک خاتون نے "نہ غلطی اپنی، نہ رقم واپس” کا موقف اپنایا، لیکن انصاف نے اپنا راستہ چُن لیا
ابوظہبی :متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں اس وقت دلچسپ قانونی صورتحال پیدا ہو گئی جب ایک خاتون کے اکاؤنٹ میں غلطی سے منتقل ہونے والے 10 ہزار درہم (تقریباً 7 لاکھ 64 ہزار پاکستانی روپے) پر وہ رقم واپس کرنے سے انکاری ہو گئی۔ سادہ سی غلطی، اخلاقی آزمائش اور عدالتی فیصلہ سب کچھ ایک ہی کہانی میں۔
واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک متاثرہ خاتون نے اپنے عزیز کو رقم بھیجتے وقت غلط اکاؤنٹ نمبر درج کر دیا، جس کے نتیجے میں 10 ہزار درہم ایک اجنبی خاتون کے اکاؤنٹ میں چلے گئے۔ جیسے ہی اس غلطی کا ادراک ہوا، متاثرہ خاتون نے دوسرے فریق سے رابطہ کرکے رقم واپس کرنے کی درخواست کی، مگر دوسری جانب سے صاف انکار کر دیا گیا۔
رقم کی واپسی نہ ہونے پر متاثرہ خاتون نے معاملہ ابوظہبی کی فیملی کورٹ میں پہنچا دیا، جہاں انہوں نے ثبوتوں کے ساتھ عدالت کو آگاہ کیا کہ رقم غلطی سے گئی ہے اور انہوں نے بروقت فریقِ مخالف کو مطلع بھی کر دیا تھا۔
عدالت نے کیس کا باریک بینی سے جائزہ لیا، تمام شواہد اور بیانات کی جانچ پڑتال کے بعد انصاف کا ترازو متاثرہ خاتون کے حق میں جھک گیا۔ عدالتی فیصلے میں صاف الفاظ میں حکم دیا گیا کہ رقم واپس کی جائے کیونکہ وہ نہ تو قانونی طور پر فریق مخالف کی ملکیت تھی، نہ ہی اخلاقی طور پر رکھی جا سکتی تھی۔
یہ واقعہ امارات میں مقیم افراد کے لیے ایک قانونی اور اخلاقی مثال بن گیا ہے، جو یہ سکھاتا ہے کہ ڈیجیٹل لین دین میں معمولی سی غلطی بھی بڑی الجھن بن سکتی ہے، اور کسی کی امانت پر قبضہ نہ صرف غیر اخلاقی بلکہ قانونی طور پر بھی قابل سزا عمل ہے۔