فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس نے غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے قطر اور امریکا کی زیرِسرپرستی نئے مجوزہ معاہدے پر مثبت ردعمل دے دیا ہے۔ حماس نے ثالثی کے کردار میں شامل قطر اور مصر کو باضابطہ طور پر اپنے مثبت جواب سے آگاہ کر دیا ہے، جس کے بعد خطے میں ممکنہ طور پر ایک نئے سیاسی اور انسانی پیش رفت کا آغاز ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
حماس کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تنظیم نے جنگ بندی سے متعلق نئی تجاویز پر اپنی مشاورت کا عمل مکمل کر لیا ہے اور اس کے بعد ثالثوں کو جواب پہنچا دیا گیا ہے۔ بیان میں مزید واضح کیا گیا ہے کہ حماس مذاکرات کے ایک نئے دور میں فوری اور سنجیدہ شرکت کے لیے تیار ہے تاکہ جنگ بندی کے اس منصوبے کو عملی شکل دی جا سکے۔
دوسری طرف، اسرائیلی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل نے پہلے ہی ان تجاویز کو قبول کر لیا ہے، اور اگر حماس کی جانب سے باضابطہ رضامندی کا اعلان ہو جائے تو اسرائیلی مذاکراتی ٹیم فوری طور پر دوحہ، قطر روانہ ہو جائے گی تاکہ بات چیت کا آغاز کیا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق امریکا کی بھرپور کوشش ہے کہ اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامن نیتن یاہو کے آئندہ ہفتے واشنگٹن کے دورے کے دوران باضابطہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا جائے۔ رپورٹس میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس جنگ بندی کے ضامن کے طور پر سامنے آئیں گے اور وہ خود معاہدے کا اعلان کریں گے، جسے ایک اہم سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
امریکی انتظامیہ اور ثالثی کردار ادا کرنے والے دیگر ممالک کی جانب سے پیش کردہ مجوزہ منصوبے کے تحت ابتدائی مرحلے میں 60 روز کے لیے فائر بندی کی جائے گی۔ اس دوران جنگ بندی کے مکمل قیام، قیدیوں کی رہائی اور انسانی امداد کی بحالی پر توجہ دی جائے گی۔
ٹرمپ کے بقول، اس مدت کے دوران تمام فریقین باہمی رضامندی سے ایک پائیدار معاہدے کی جانب بڑھیں گے، جبکہ قطر اور مصر کی حکومتیں اس عمل کو حتمی شکل دینے کے لیے کلیدی تجاویز مرتب کریں گی۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق اس معاہدے میں یہ طے کیا گیا ہے کہ حماس کے قبضے میں موجود 10 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا، جب کہ 18 اسرائیلی ہلاک شدگان کی لاشوں کی واپسی تین مرحلوں میں مکمل کی جائے گی۔ یہ اقدام انسانی بنیادوں پر اہم تصور کیا جا رہا ہے اور اس کی کامیابی معاہدے کی ابتدائی منظوری میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
اسی معاہدے کے ایک اور پہلو کے تحت حماس، اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے متعدد نام پیش کرے گی۔ ان میں وہ افراد بھی شامل ہو سکتے ہیں جن کی رہائی سے اسرائیل اب تک انکار کرتا آیا ہے۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر مذاکرات میں خاصی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں، کیونکہ اسرائیل کے لیے ان ناموں کو منظور کرنا ایک حساس معاملہ تصور کیا جا رہا ہے۔
امدادی نظام کے حوالے سے بھی دونوں فریقوں کے مؤقف میں فرق ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ غزہ میں امریکی نجی کمپنی کے ذریعے امدادی اشیاء کی ترسیل کا موجودہ طریقہ کار جاری رکھا جائے، جبکہ حماس کا مؤقف ہے کہ اقوام متحدہ کے تحت امداد کی تقسیم کا سابقہ طریقہ بحال کیا جائے، تاکہ شفافیت اور غیرجانبداری کو یقینی بنایا جا سکے۔
مزید برآں، حماس نے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں روزانہ کم از کم 400 سے 600 انسانی امدادی ٹرک داخل کیے جائیں تاکہ شدید متاثرہ عوام کو خوراک، ادویات، صاف پانی اور دیگر بنیادی ضروریات کی بلا تعطل فراہمی ممکن ہو۔ یہ مطالبہ زمینی حقائق کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے کیونکہ اسرائیلی ناکہ بندی اور فضائی حملوں کی وجہ سے غزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔
اس تمام پیش رفت کو دیکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فریقین سنجیدگی کے ساتھ اس امن منصوبے پر عملدرآمد کے لیے متفق ہو جاتے ہیں تو یہ نہ صرف غزہ بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے لیے ایک نئی امید بن سکتا ہے۔ تاہم اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ فریقین عملی اقدامات اور لچکدار رویہ اختیار کرتے ہیں یا نہیں۔