بین الاقوامی اقتصادی صورتحال میں پیدا ہونے والی غیر یقینی کیفیت اور عالمی منڈیوں میں بڑھتی ہوئی کساد بازاری کے خدشات کے پیش نظر، امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک اہم معاشی فیصلہ کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک سے درآمد ہونے والی اشیاء پر عائد ٹیرف کو 90 دن کے لیے عارضی طور پر روک دیا ہے۔
اس اعلان کا مقصد عالمی سطح پر پیدا ہونے والی بےچینی کو کم کرنا اور عالمی تجارت میں استحکام پیدا کرنا ہے۔
تاہم اس کے برعکس، چین کے ساتھ تجارتی کشیدگی میں مزید شدت آ گئی ہے، کیونکہ صدر ٹرمپ نے چینی مصنوعات پر ٹیرف میں غیرمعمولی طور پر 125 فیصد تک اضافہ کر دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ چین کی عالمی منڈیوں میں طرز عمل عدم تعاون پر مبنی اور بین الاقوامی اقتصادی ضوابط کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ سوشل پر یہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ چینی درآمدات پر فوری اور سخت اضافی محصولات عائد کی جائیں گی۔
صدر ٹرمپ نے مزید وضاحت کی کہ دنیا کے 75 سے زیادہ ممالک نے امریکہ سے مذاکرات کی درخواست کی ہے تاکہ نئی تجارتی شرائط پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔
ان ممالک کے لیے انہوں نے ٹیرف میں نرمی کا عندیہ دیا ہے، جس کے تحت اگلے 60 دنوں تک نئے محصولات کو عارضی طور پر مؤخر کر دیا گیا ہے۔
تاہم اس مدت میں 10 فیصد عبوری ٹیرف فوری طور پر نافذ العمل رہے گا۔
صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد کچھ عالمی منڈیوں میں بہتری کے آثار ضرور دیکھے جا رہے ہیں، لیکن چین کے علاوہ دیگر ممالک کے ساتھ ہونے والی تجارتی نرمی کی تفصیلات ابھی واضح نہیں ہو سکیں۔
چین نے اس فیصلے پر سخت ردعمل دیتے ہوئے امریکی مصنوعات پر 84 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
چینی وزارتِ خزانہ نے بدھ کو جاری کردہ بیان میں کہا کہ امریکہ کی جانب سے تجارتی رکاوٹیں کھڑی کرنا عالمی معاشی نظم کے لیے خطرناک ہے اور اس قسم کے اقدامات چین کے قانونی مفادات پر براہ راست حملہ ہیں۔
اس کے ساتھ ہی چین کی وزارت تجارت نے علیحدہ بیان میں یہ بھی واضح کیا کہ وہ امریکہ کی چھ مشہور کمپنیوں کو بلیک لسٹ کرے گا، جن میں شیلڈ اے آئی انکارپوریشن اور سیرا نیواڈا کارپوریشن شامل ہیں۔
ان کمپنیوں پر الزام ہے کہ وہ تائیوان کے ساتھ دفاعی ساز و سامان کی فروخت اور عسکری ٹیکنالوجی میں شراکت داری کر رہی تھیں، جو چین کے قومی مفادات کے خلاف ہے۔