یورپی یونین کی جانب سے سیاسی پناہ کی پالیسی میں سختی اور نئی ترجیحات کے تناظر میں سات ممالک کو ایک ایسی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جنہیں محفوظ ممالک تصور کیا جا رہا ہے۔
اس فہرست کے اجرا کا مقصد یورپی ممالک کو پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستوں کے فیصلے تیزی سے نمٹانے میں مدد دینا ہے، تاکہ نظام پر بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کیا جا سکے۔
یورپی کمیشن نے ایک بیان میں کہا کہ کوسوو، بنگلہ دیش، کولمبیا، مصر، بھارت، مراکش اور تیونس اب ان ممالک میں شمار ہوں گے جنہیں سیف کنٹریز آف اوریجن یعنی محفوظ آبائی ممالک سمجھا جائے گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ممالک سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کی درخواستوں کو زیادہ سنجیدہ خطرات کے بغیر جلد از جلد نمٹایا جا سکے گا، کیونکہ یورپی یونین کے مطابق ان کے ممالک میں عمومی حالات سیاسی یا انسانی تحفظ کی سطح پر اتنے خطرناک نہیں ہیں کہ ہر درخواست گزار کو پناہ کی ضرورت ہو۔
یورپی کمشنر برائے مہاجرت مینگوس برُونر نے اس اقدام کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں رکن ممالک کی جانب سے پناہ کی درخواستوں کے بڑھتے ہوئے بیک لاگ کی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔
کئی ممالک کے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ وہ ہر کیس کی تفصیل میں جا کر وقت ضائع کریں، اس لیے ہم ایسے اقدامات کو فروغ دے رہے ہیں جو اس عمل کو تیز کر سکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے ممالک جو یورپی یونین میں شمولیت کے امیدوار ہیں، وہ بھی اصولی طور پر محفوظ ممالک کے زمرے میں آ سکتے ہیں، بشرطیکہ ان کے اندرونی حالات اس معیار پر پورے اتریں۔
ادھر یورپی یونین کے رکن ممالک کو غیرقانونی مہاجرت کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا بھی سامنا ہے، اور کئی ممالک کی حکومتیں اپنے عوام کے غصے کا سامنا کر رہی ہیں، جو محسوس کرتے ہیں کہ مہاجرین کی آمد سے ان کے معاشی اور سماجی ڈھانچے پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔
اس صورت حال نے یورپی سیاست میں دائیں بازو کی جماعتوں کو مزید طاقت بخشی ہے جو سخت گیر مہاجر مخالف پالیسیوں کی وکالت کرتی ہیں۔
اکتوبر 2024 میں سویڈن، اٹلی، ڈنمارک اور نیدرلینڈز جیسے اہم رکن ممالک نے یورپی یونین پر زور دیا تھا کہ وہ غیرقانونی طریقے سے آنے والے افراد کو فوری واپس بھیجنے کے لیے سخت اور مؤثر قوانین متعارف کرائے۔
ان ممالک نے اس معاملے میں ’تخلیقی اقدامات‘ کی ضرورت پر بھی زور دیا تھا تاکہ مہاجرت کے موجودہ بحران سے بہتر طور پر نمٹا جا سکے۔
یاد رہے کہ گزشتہ مہینے یورپی یونین نے مہاجرین کی واپسی سے متعلق ایک جامع اصلاحاتی منصوبہ بھی پیش کیا تھا، جس کا مقصد رکن ممالک کو اس بات کی اجازت دینا تھا کہ وہ اپنے ہاں موجود غیرقانونی پناہ گزینوں کو ان کے آبائی ممالک میں واپس بھیج سکیں۔
یورپی یونین کے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار بھی اس تشویش کو واضح کرتے ہیں، جن کے مطابق اس وقت صرف 20 فیصد سے بھی کم ایسے پناہ کے متلاشی ہیں جنہیں ان کے آبائی ممالک واپس بھیجنے کے احکامات پر واقعی عمل درآمد ہوا ہے۔
اس صورتحال میں محفوظ ممالک کی فہرست جاری کرنے کا فیصلہ ایک ایسا اقدام ہے جس سے توقع کی جا رہی ہے کہ پناہ کی درخواستوں کے دباؤ میں کمی آئے گی اور غیرقانونی طور پر یورپ آنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
یوں بظاہر یہ قدم یورپی یونین کی سیاسی پناہ کی پالیسیوں میں ایک واضح اور عملی تبدیلی کا عکاس ہے، جو نہ صرف بیک لاگ نمٹانے بلکہ اپنے داخلی سیاسی دباؤ سے نمٹنے کی ایک کوشش بھی ہے۔