یروشلم اور غزہ کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں عرب و اسلامی وزرائے خارجہ کے ایک اعلیٰ سطحی وفد کی جانب سے مغربی کنارے کا دورہ کرنے کی کوشش اس وقت ناکام ہو گئی جب اسرائیلی حکام نے رام اللہ میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ اس فیصلے کی عرب وزرائے خارجہ کی جانب سے سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
اردن کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں واضح طور پر کہا گیا کہ اسرائیل نے ایک انتہائی اہم سفارتی ملاقات کو روک کر نہ صرف فلسطینی قیادت کی تذلیل کی ہے بلکہ خطے میں امن کی کوششوں کو بھی دھچکہ پہنچایا ہے۔
اس دورے کا مقصد فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات تھا تاکہ غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے، انسانی امداد کی فراہمی اور دو ریاستی حل کی جانب سیاسی پیش رفت کی راہیں تلاش کی جا سکیں۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اس وفد کی قیادت کر رہے تھے جس میں مصر، اردن، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکی کے وزرائے خارجہ شامل تھے۔
یہ دورہ ان کوششوں کا تسلسل تھا جو حالیہ دنوں میں میڈرڈ میں ہونے والی کمیٹی میٹنگ کے بعد طے پائی تھیں، جس میں غزہ اور مغربی کنارے کی صورتحال پر تفصیلی غور کیا گیا تھا۔
اس دوران عرب اسلامی وزارتی کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ 4 جون 1967 کی سرحدوں کے مطابق آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہی مسئلے کا واحد پائیدار اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حل ہے، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔
وزراء نے اس بات پر بھی زور دیا کہ فلسطینیوں کی حق خودارادیت کو یقینی بنایا جائے اور کسی بھی قسم کے جبری انضمام یا آبادکاری کی کوششوں کو مکمل طور پر مسترد کیا جائے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ میں فلسطین کے مستقل مندوب ڈاکٹر ریاض منصور نے بتایا کہ سعودی عرب نہ صرف فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے فعال اقدامات کرنے والا ہے بلکہ یورپ اور مغربی ممالک میں سفارتی حمایت کے لیے خصوصی مہم کا بھی آغاز کر چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگلے مرحلے میں کم از کم دس مغربی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا امکان رکھتے ہیں۔
اسی ضمن میں سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ صدارت میں آئندہ ماہ نیویارک میں ایک عالمی فلسطین کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے، جس میں دنیا کے بیشتر اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک، مبصر ریاستیں اور علاقائی بلاکس شرکت کریں گے۔
کانفرنس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے حمایت کو منظم کرنا اور دو ریاستی حل کے لیے عملی اقدامات کو فروغ دینا ہے۔
اجتماعی اعلامیے میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اقوامِ متحدہ کی فلسطینی امدادی ایجنسی UNRWA اور فلسطینی حکومت کو ہر ممکن مالی، سیاسی اور اخلاقی مدد فراہم کی جائے تاکہ مقبوضہ علاقوں میں انسانی بحران پر قابو پایا جا سکے۔
اس موقع پر یہ بھی کہا گیا کہ اسرائیل کی جانب سے سفارتی وفد کو روکنے کا اقدام اس کے جارحانہ طرز عمل کی عکاسی کرتا ہے جو نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ خطے میں جاری کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔
سعودی عرب کی سفارتی قیادت اب صرف زبانی بیانات تک محدود نہیں رہی بلکہ عالمی سطح پر فلسطینی کاز کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کے لیے پوری سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔