پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے درمیان ایک اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، جس نے ملکی معیشت کے استحکام کی امید کو تقویت دی ہے۔ آئی ایم ایف نے اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کی یادداشت (MEFP) کا مسودہ شیئر کر دیا ہے، جو کہ 7 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت (EFF) کے تحت عملے کی سطح پر معاہدے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ یہ وہ پیشرفت ہے جس کا پاکستان بے صبری سے انتظار کر رہا تھا، کیونکہ یہ معاہدہ ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط کے اجرا کے لیے ضروری ہے۔
حیران کن طور پر، آئی ایم ایف نے تعمیراتی اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے کچھ ریلیف دینے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔ تاہم، یہ ابھی واضح نہیں کہ یہ مراعات فوری طور پر ملیں گی یا آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں شامل کی جائیں گی۔ اس فیصلے سے ملک میں ترقیاتی منصوبوں کو نئی زندگی مل سکتی ہے اور تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب، مالیاتی نظم و ضبط کو یقینی بنانے کے لیے آئی ایم ایف نے سخت شرائط رکھی ہیں۔ ایک اہم نکتہ پیٹرولیم مصنوعات پر 70 روپے فی لیٹر لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے، جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ محصولات حاصل کرنا اور اس آمدنی کو بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے استعمال کرنا ہے۔ تاہم، آئی ایم ایف نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھیں تو حکومت گردشی قرضے کا سامنا کیسے کرے گی؟ ماہرین معیشت اس تجویز کے اثرات پر غور کر رہے ہیں، کیونکہ ماضی میں اس قسم کی کراس سبسڈی کامیاب ثابت نہیں ہوئی۔
پاکستان نے توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے لیے 6 سالہ منصوبہ پیش کیا ہے، جس کا مقصد 2.4 کھرب روپے کے گردشی قرضے کو ختم کرنا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی منظوری کے بعد حکومت کو مالیاتی ریلیف ملا ہے، کیونکہ یہ نیا قرض عوامی قرضے میں ظاہر نہیں ہوگا۔ حکام کے مطابق، بجلی کے بلوں پر 3 روپے فی یونٹ ڈیبٹ سروس سرچارج (DSS) لاگو رہے گا، جس سے سالانہ 300 ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے۔
اس پیشرفت پر وزیر بجلی اویس لغاری کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ آئی ایم ایف نے بینکوں سے قرض لینے کی منظوری دے دی ہے، کیونکہ اس مطالبے میں کوئی اصولی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈیبٹ سروس سرچارج میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی جائے گی اور یہ 3 روپے فی یونٹ سے کم ہی رہے گا۔
یہ سب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات مثبت سمت میں جا رہے ہیں۔ اگر عملے کی سطح پر معاہدہ جلد طے پا جاتا ہے، تو پاکستان کے لیے ایک ارب ڈالر کی قسط کا اجرا ممکن ہو سکے گا، جو معیشت کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ آنے والے دنوں میں مزید پیش رفت کی توقع کی جا رہی ہے، جو پاکستان کے مالی مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے