صدر پاکستان آصف علی زرداری نے بلوچستان میں دہشت گردی کے خلاف حکومت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر قیمت پر دہشت گرد عناصر کو شکست دی جائے گی اور صوبے میں پائیدار امن اور ترقی کو یقینی بنایا جائے گا۔ بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال پر اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے صدر زرداری نے ان دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو اجاگر کیا جو پاکستان کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اجلاس میں چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، قائم مقام گورنر بلوچستان کیپٹن (ر) عبد الخالق اچکزئی، چیف سیکریٹری بلوچستان شکیل قادر خان، آئی جی پولیس معظم جاہ انصاری اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے صوبے میں امن و امان کی صورت حال پر تفصیلی بریفنگ دی۔ اس موقع پر صدر زرداری نے واضح کیا کہ ملک کی ریاست قائم رہے گی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنی ہوگی۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت انسداد دہشت گردی فورسز کو جدید ترین ہتھیار فراہم کرے گی تاکہ دہشت گردوں کا مقابلہ مؤثر طور پر کیا جا سکے۔ صدر نے مزید کہا، "بلوچستان ہمارے دل کے قریب ہے، اور ہم صوبے میں ترقی اور پائیدار امن چاہتے ہیں۔” انہوں نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ بلوچستان کے ہر بچے کو تعلیم فراہم کی جائے اور انہیں جدید ٹیکنالوجی سے آشنا کیا جائے۔
اس اہم اجلاس کا انعقاد اس وقت ہوا جب بلوچستان کے ضلع بولان میں جعفر ایکسپریس پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس میں ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حالیہ دنوں میں شدت پسندی کی لہر میں اضافے کی خبریں آئیں ہیں، جس کے مطابق گلوبل ٹیررزم انڈیکس 2025 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 2024 میں ہونے والے شدت پسند حملوں کا 96 فیصد ان دونوں صوبوں میں ہوا۔ بلوچستان میں 11 مارچ کو جعفر ایکسپریس پر حملے کی بدولت یہ مسئلہ عالمی سطح پر نمایاں ہوا جب علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (BLA) نے 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ سکیورٹی فورسز نے کامیاب کارروائی کرتے ہوئے تمام مسافروں کو بازیاب کرا لیا اور حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا۔
اسی طرح، 16 مارچ کو نوشکی میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر ہونے والے حملے میں تین اہلکار اور دو شہری جاں بحق ہو گئے، جس سے علاقے میں دہشت گردوں کی موجودگی اور شدت پسندی کی لہر کو مزید اجاگر کیا۔یہ حملے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی علامت ہیں، اور ان کی روک تھام کے لیے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے یکجہتی اور سخت اقدام کا فیصلہ کیا ہے۔