سپریم کورٹ میں اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ایک شاندار بیان دیا ہے جس میں انہوں نے واضح کیا کہ "ایک وقت تھا جب حکومتیں عدالتوں کو چلایا کرتی تھیں، مگر اب ویسا وقت گزر چکا ہے۔” ان کے اس ریمارکس نے عدلیہ کی خودمختاری اور حکومتوں کی مداخلت کے حوالے سے اہم سوالات اٹھا دیے ہیں۔
یہ کیس جسٹس امین الدین کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے سنا، جس میں اقلیتوں کے حقوق اور ان کی حفاظت کے حوالے سے اہم قانونی نکات پر بات کی گئی۔ سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے الزام لگایا کہ نامزد ملزمان کو ضمانتیں مل چکی ہیں اور تفتیش میں کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی گئی۔ اس پر جسٹس نعیم اختر نے فرمایا کہ "اگر ضمانت ہوچکی ہے تو اس کے خلاف متعلقہ فورمز پر اپیل کی جا سکتی ہے۔”
جسٹس جمال مندوخیل نے اس بات کو بھی وضاحت سے بیان کیا کہ وہ "یہاں حکومتیں چلانے کے لیے نہیں بیٹھے، ہم صرف عدلیہ کے عمل میں مداخلت کرتے ہیں جہاں ضرورت ہو۔” جب ایک وکیل نے پاکستانی اور بھارتی سپریم کورٹ کے کام کے فرق پر بات کی، تو جسٹس مندوخیل نے جواب دیا، "جو بات آپ کر رہے ہیں، وہ تو نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے۔”
ان کے ریمارکس اس بات کا غماز ہیں کہ عدلیہ نے اپنے کردار کو صاف اور شفاف طریقے سے ادا کرنے کا عزم کر رکھا ہے، اور حکومتی مداخلت کا کوئی گزر نہیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ حکومت کے خلاف باتیں بین الاقوامی سطح پر اثرات پیدا کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں، لیکن جسٹس مندوخیل نے واضح کیا کہ "یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا کہ پورا ریاستی نظام اس میں ملوث ہے، جیسے حالیہ ٹرین دہشت گردی کا واقعہ ہو یا کوئی اور حادثہ۔”
آخرکار، عدالت نے کیس کی سماعت پانچ ہفتوں تک ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ کیس صرف اقلیتی حقوق تک محدود نہیں، بلکہ پورے عدلیہ کے کردار اور حکومتی مداخلت کے حوالے سے بھی اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔