سپریم کورٹ میں موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کے قیام سے متعلق اہم کیس کی سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے کی۔ سماعت کے دوران، عدالت نے موسمیاتی تبدیلی کے سنگین مسئلے پر حکومت کی سست روی پر سخت تنقید کی، جس میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے حکومت کی جانب سے چیئرمین کی تعیناتی کے لیے تیسری مرتبہ اشتہار دینے کی وضاحت کی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ "موسمیاتی تبدیلی ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے، حکومت کو چیتے کی رفتار سے کام کرنا چاہیے، مگر وہ کچھوے کی چال چل رہی ہے!” انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو کچھ سمجھوتہ کرنا پڑے گا، تاکہ اعلیٰ معیار کے افراد کو اس اہم عہدے پر مقرر کیا جا سکے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت میں بتایا کہ تین ناموں کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا، جن میں سے ایک امیدوار کی دہری شہریت سامنے آئی، جس کے باعث اسے مسترد کر دیا گیا۔ اس پر جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ "پہلے دو اشتہارات کا فائدہ کیوں نہیں ہوا؟” جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے وضاحت پیش کی کہ حکومتی پالیسی کے تحت دوہری شہریت رکھنے والے افراد کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات نہیں کیا جا سکتا۔
مذکورہ کیس میں جسٹس امین الدین نے بھی صوبوں کے کردار پر سوال اٹھایا، خاص طور پر خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کی جانب سے نامزد کردہ ممبران کے حوالے سے۔ انہوں نے کہا کہ "کے پی سے فیصل امین کو موسمیاتی تبدیلی کا ممبر بنایا گیا ہے جو وزیراعلیٰ کے بھائی ہیں، اور بلوچستان سے ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ممبر بنایا گیا ہے، حالانکہ ان کا اس شعبہ میں کوئی تجربہ نہیں۔”
سماعت کے دوران، سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی نے عدالت کو بتایا کہ پچھلے اشتہار کے بعد 752 درخواستیں آئی تھیں، جن میں سے تین امیدوار شارٹ لسٹ کیے گئے تھے، لیکن باقی دو ناموں پر غور کیوں نہیں کیا گیا؟ اس پر وکیل درخواست گزار میاں سمیع نے کہا کہ "خالصتاً پاکستانی ماہر کا ملنا مشکل نظر آ رہا ہے، اور 2017 سے موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی غیر فعال ہے۔”
عدالت نے اس تمام صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد کیس کی مزید سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دی، اور حکومت کو واضح ہدایات دی کہ وہ موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کی تشکیل کو تیز تر کریں تاکہ اس اہم مسئلے کو حل کرنے میں مزید تاخیر نہ ہو۔