پی آئی اے کی پرواز اسلام آباد ایئرپورٹ پر اتری تو عام مسافروں کے ساتھ تقریباً 70 ایسے پاکستانی بھی جہاز میں موجود تھے جن کے چہروں پر مایوسی اور شرمندگی کے گہرے آثار نمایاں تھے۔
کچھ لوگ تھکن اور بے بسی میں خاموش بیٹھے تھے، کچھ کی آنکھوں میں آنسو تھے، اور کچھ ایسے بھی تھے جو کسی گہری سوچ میں گم نظر آ رہے تھے۔
یہ سب وہ لوگ تھے جو بہتر مستقبل کی تلاش میں ملائیشیا گئے تھے لیکن حقیقت نے ان کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا تھا۔
مسافروں میں موجود میاں عتیق، جو ایک کاروباری دورے پر ملائیشیا گئے تھے، نے جہاز میں ان پاکستانیوں سے بات کی تو ان کی کہانیاں سن کر دل دہل گیا۔
کوئی قرض لے کر بیرون ملک پہنچا تھا، کسی کو انسانی اسمگلروں نے بے وقوف بنایا تھا، اور کچھ ایسے بھی تھے جنہیں اپنے ہی ہم وطنوں کی غلط حرکات کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ہر کسی کی کہانی دوسرے سے زیادہ دردناک تھی، اور سبھی کے چہروں پر مایوسی اور تھکن کی گہری لکیریں ثبت تھیں۔
خیبرپختونخوا کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے رحمت علی دو سال قبل سیاحتی ویزے پر ملائیشیا پہنچے تھے۔
ان کے پاس قانونی طور پر کام کرنے کا کوئی اجازت نامہ نہیں تھا، لیکن روزگار کی تلاش میں انہوں نے ایک ورکشاپ میں مزدوری شروع کر دی۔
وہ کئی مہینوں تک پولیس کی نظروں سے بچ کر کام کرتے رہے لیکن ایک دن اچانک پولیس نے چھاپہ مارا اور انہیں گرفتار کر لیا۔
آنکھوں میں نمی لیے وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے سب کچھ بیچ کر یہ سفر کیا تھا تاکہ اپنے بچوں کو بہتر زندگی دے سکیں لیکن اب خالی ہاتھ اور شرمندگی کے ساتھ واپس لوٹ رہے ہیں۔
حسن زیدی، جو چکوال کے رہائشی ہیں، ایک ہوٹل میں باقاعدہ ورک ویزے پر کام کر رہے تھے۔
ان کے پاس تمام قانونی دستاویزات موجود تھیں اور وہ ہر سال اپنے ویزے کی تجدید بھی کروا رہے تھے۔
لیکن جب کچھ پاکستانیوں کو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا اور کچھ کو بھیک مانگتے ہوئے گرفتار کیا گیا تو ملائیشین حکام نے کئی پاکستانیوں کو بنا کسی تحقیق کے حراست میں لے لیا۔
حسن زیدی بھی انہی میں شامل تھے۔ وہ افسوس کے ساتھ کہتے ہیں کہ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ پاکستانی تھے اور کچھ لوگوں کی غلط حرکات کی سزا انہیں بھی ملی۔
ملائیشیا میں غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانی مسلسل خوف کے سائے میں زندگی گزارتے ہیں۔
انہیں ہمیشہ اس بات کا ڈر رہتا ہے کہ کب کریک ڈاؤن شروع ہوگا اور کب وہ پکڑے جائیں گے۔
گرفتار ہونے والوں کو کوالالمپور ایئرپورٹ کے حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہے جہاں درجنوں افراد کو ایک ہی کمرے میں قید کر دیا جاتا ہے۔
کھانے پینے کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور ہر وقت یہ خوف طاری رہتا ہے کہ اگلا لمحہ کیا لے کر آئے گا۔
پھر ایک دن اچانک ان کے ہاتھ میں واپسی کا ٹکٹ تھما دیا جاتا ہے اور انہیں ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے۔
جب جہاز اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترا تو عام مسافروں کو تو عزت کے ساتھ نیچے اتار دیا گیا لیکن ان بے دخل ہونے والے افراد کو جہاز میں ہی بٹھا دیا گیا۔
ایف آئی اے کے حکام ان کے کاغذات کی چھان بین میں لگ گئے۔
کچھ افراد کو مزید تفتیش کے لیے روکا گیا جبکہ کچھ کو صرف اس وقت جانے دیا گیا جب ان کے ٹکٹ کے پیسے ادا کیے گئے۔
ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ زیادہ تر افراد وزٹ ویزے پر بیرون ملک جاتے ہیں اور پھر وہاں غیر قانونی طور پر ملازمتیں شروع کر دیتے ہیں۔
کچھ لوگ تو بھیک مانگنے جیسے کاموں میں بھی ملوث ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستانیوں کو بڑی تعداد میں بے دخل کیا جا رہا ہے۔
حکام کے مطابق ٹریول ایجنٹ ان افراد کو اس طریقے سے بھیجتے ہیں کہ ان کے پاس واپسی کا ٹکٹ موجود ہوتا ہے لیکن جیسے ہی وہ ملائیشیا پہنچتے ہیں، ایجنٹ ان کے ٹکٹ ریفنڈ کروا لیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ وہاں پھنس جاتے ہیں اور وطن واپس نہیں آ سکتے۔
جب وہ اسلام آباد پہنچتے ہیں تو پی آئی اے انہیں اس وقت تک جہاز میں بٹھائے رکھتی ہے جب تک ان کے ٹکٹ کے پیسے ادا نہیں کیے جاتے۔
دوسری جانب ایف آئی اے بھی ان سے مکمل تفتیش کرتی ہے تاکہ اگر کوئی شخص انسانی اسمگلنگ کے کسی گروہ کا شکار ہوا ہو تو اس معاملے کی چھان بین کی جا سکے۔
ملائیشیا سے پاکستانیوں کی بے دخلی کا یہ معاملہ نیا نہیں ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں ہزاروں پاکستانیوں کو وہاں سے واپس بھیجا جا چکا ہے۔
2014 سے 2019 کے درمیان 18,000 سے زائد پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کیا گیا تھا، اور 2025 کے آغاز میں مزید 16 پاکستانیوں کو واپس بھیجا گیا۔
صرف پچھلے ماہ بھی دو افراد کو ناپسندیدہ قرار دے کر ملک بدر کیا گیا۔ یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا، اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید پاکستانی اس انجام سے دوچار ہو رہے ہیں۔