پانچ نومبر کو ہونے والے امریکہ کے صدارتی الیکشن میں کس کو برتری حاصل ہے؟
ابتدائی طور پر تو یہ انتخابات 2020 کے صدارتی انتخاب کا ری پلے لگ رہے تھے تاہم جولائی میں صورتحال اُس وقت بدل گئی جب صدر جو بائیڈن اس دوڑ سے دستبردار ہوگئے اور نائب صدر کملا ہیرس صدارتی امید وار بن گئیں۔
اب بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اس انتخاب کا نتیجہ ڈونلڈ ٹرمپ کو دوسری بار صدر بنائے گا یا امریکی تاریخ میں پہلی بار کوئی خاتون صدر بنیں گی؟
مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن کی دستبرداری تک تو معاملہ کافی حد تک یکطرفہ لگتا تھا تاہم کملا ہیرس کے میدان میں آنے سے صورتحال بدل گئی ہے۔
جبکہ امریکی میڈیا کے بہت سے سینئر تبصرہ نگاروں کی رائے یہ ہے کہ اب صدر ٹرمپ بڑی آسانی سے جیتنے کی پوزیشن میں آ چکے ہیں۔
رائے عامہ میں کملا ہیرس کو ڈونلڈ ٹرمپ پر کچھ برتری حاصل ہے لیکن وہ اتنی زیادہ نہیں ہے۔
امریکہ میں الیکٹورل کالج کے نظام کا استعمال کیا جاتا ہے جس میں ہر ریاست کو اس کی آبادی کے تناسب سے ووٹ دیے جاتے ہیں۔
ان الیکٹورل ووٹوں کی کل تعداد 538 ہے اور فتح کے لیے کسی بھی امیدوار کو 270 ووٹ حاصل کرنا ہوتے ہیں۔
امریکہ میں 50 ریاستیں ہیں جن میں سے چند ریاستیں "بیٹل گراؤنڈ سٹیٹس” کہلاتی ہیں۔ یہ وہ ریاستیں ہیں جو ملک کے صدر بننے کے خواہشمند امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کرتی ہیں۔
کملا ہیرس امریکہ کے صدارتی الیکشن میں پہلی سیاہ فام خاتون امیدوار ہیں جو خود کو محض امریکی کہنا پسند کرتی ہیں۔ وہ جیت جاتی ہیں تو یہ حیران کن ہوگا۔
چند ریاستیں ایسی ہیں جہاں دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان مقبولیت کا فرق انتہائی حد تک کم ہے (یعنی کوئی واضح طور پر آگے نہیں ہے)۔
جن میں نیواڈا، پینسلوینیا، مشی گن، شمالی کیرولائنا، جارجیا اور ایریزونا شامل ہیں۔ انھیں "سوئنگ سٹیٹس” بھی کہا جاتا ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق کملا ہیرس اگست کے آغاز میں تو ان ریاستوں میں دو یا تین پوائنٹس کی برتری حاصل کیے ہوئے تھیں لیکن حالیہ دنوں کے انتخابی جائزوں میں مقابلہ سخت ہو گیا ہے اور اب ٹرمپ کو پنسلوینیا میں معمولی برتری حاصل ہے۔
مبصرین کے مطابق کملا اگر ان ریاستوں میں برتری کو اپنے پاس رکھنے میں کامیاب رہتی ہیں تو ان کے جیتنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔