آج یوم الترویہ کے روح پرور مناظر میں جب لاکھوں حجاج کرام تلبیہ کی صداؤں، تسبیح و تکبیر کی گونج میں منیٰ کی جانب رواں دواں ہیں، تو فضا ایمان و ایقان سے لبریز ہو چکی ہے۔ عرفات کے وقوف سے قبل، منیٰ میں قیام کا یہ مبارک دن تاریخ کے اس عظیم سفر کی یاد دلاتا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور رسول مکرم ﷺ نے حج کی صورت میں دنیا کو سکھایا۔ حج کے اس مقدس سفر میں 64 فی صد حجاج منیٰ میں قیام کرتے ہیں، جب کہ دیگر براہِ راست عرفات کا رخ کرتے ہیں، جہاں حج کا سب سے بڑا رکن، وقوف عرفہ ادا کیا جاتا ہے۔
منیٰ، جو سات کلومیٹر کے فاصلے پر مکہ مکرمہ کے شمال مشرق میں واقع ہے، ایک خیمہ بستی میں بدل چکا ہے، جہاں دنیا بھر سے آئے لاکھوں مسلمان رنگ، نسل اور زبان کے فرق کو بھلا کر یکجہتی کی ایک بے مثال تصویر پیش کرتے ہیں۔ تین تاریخی جمرات، مسجد الخیف اور مسجد بیعت جیسے مقامات اس جگہ کو صرف جغرافیائی ہی نہیں، روحانی اور تاریخی وقار بھی عطا کرتے ہیں۔ یہاں حضرت ابراہیمؑ نے رمی کی، اپنے بیٹے اسماعیلؑ کے فدیے کے لیے قربانی دی، اور اسی مقام پر رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے مناسک ادا کر کے امت کے لیے ایک مستقل راستہ متعین فرمایا۔
بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ جیسے اہم واقعات بھی اسی وادی کے دامن میں پیش آئے، جہاں مدینہ کے جانبازوں نے نبی اکرم ﷺ کے ہاتھ پر وفاداری اور نصرت کا وعدہ کیا۔ انہی لمحات کی یاد میں عباسی دور میں تعمیر کی گئی مسجد بیعت آج بھی زائرین کے لیے جذب و عقیدت کا مرکز ہے۔
سعودی حکومت نے منیٰ کی اہمیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جدید سہولیات کا وسیع انتظام کیا ہے—جس میں ایئر کنڈیشنڈ خیمے، سکیورٹی، طبی امداد، کھانے کی تقسیم، اور نقل و حمل کے مربوط نظام شامل ہیں—تاکہ حجاج کرام مکمل سکون اور روحانی انہماک کے ساتھ اپنے مناسک ادا کر سکیں۔ منیٰ کی یہ خیمہ بستی آج ایک عالمی روحانی اجتماع کا منظر پیش کر رہی ہے، جہاں ہر دل اللہ کی رضا اور مغفرت کا طلبگار ہے، اور ہر آنکھ اشک ندامت سے تر ہے۔