ماسکو – روسی ذرائع کے مطابق، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان ایک اہم سربراہی اجلاس کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ممکنہ میزبان ممالک کے طور پر زیر غور ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات میں پیش رفت کے لیے سینئر روسی حکام نے حالیہ دنوں میں سعودی عرب اور یو اے ای کا دورہ کیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پس پردہ کوششیں جاری ہیں۔
ٹرمپ نے یوکرین میں جاری جنگ کو جلد از جلد ختم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور اس مقصد کے لیے پیوٹن سے ملاقات کی آمادگی ظاہر کی ہے۔
اس کے برعکس، روسی صدر پیوٹن نے بھی ٹرمپ کو انتخاب میں کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے یوکرین اور توانائی کے معاملات پر بات چیت کے لیے اپنی دلچسپی ظاہر کی ہے۔
روسی حکام نے امریکی حکومت کے ساتھ کسی بھی براہ راست رابطے کی تردید کی ہے، خاص طور پر اس ابتدائی ٹیلی فون کال سے متعلق جو ممکنہ طور پر اس مجوزہ سربراہی اجلاس کی تیاری کے لیے ضروری ہوگی۔
تاہم، حالیہ روسی سفارتی دورے اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان پس پردہ رابطے جاری ہیں اور مستقبل قریب میں کسی اعلیٰ سطحی ملاقات کا امکان موجود ہے۔
اتوار کے روز، ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ ان کی انتظامیہ مختلف فریقین بشمول یوکرین اور روس کے ساتھ ملاقاتیں اور مذاکرات طے کر رہی ہے۔
جب کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف سے اس بیان پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ ایسے مذاکرات بظاہر منصوبہ بندی کے مرحلے میں ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں جب ٹرمپ اور سعودی عرب کے تعلقات نمایاں ہوئے ہوں۔
ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان وہ پہلے غیر ملکی رہنما تھے جن سے انہوں نے باضابطہ طور پر بات کی۔
اس سے قبل، ورلڈ اکنامک فورم (ڈیووس) میں خطاب کے دوران، ٹرمپ نے سعودی ولی عہد کو شاندار شخصیت قرار دیا تھا۔
روس کے صدر پیوٹن نے بھی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سفارتی کردار کو سراہا ہے، خاص طور پر اس وقت جب ان ممالک نے سرد جنگ کے بعد امریکہ اور روس کے درمیان سب سے بڑے قیدیوں کے تبادلے میں سہولت فراہم کی تھی۔
2023 میں پیوٹن کے خلیجی ممالک کے دورے نے بھی ان کے ساتھ روس کے تعلقات کو مزید مستحکم کیا۔
یہ تمام واقعات اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات عالمی سطح پر ایک اہم سفارتی کردار ادا کر رہے ہیں۔
اگر یہ اجلاس ان ممالک میں منعقد ہوتا ہے، تو یہ امریکہ، روس اور مشرق وسطیٰ کے تعلقات کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔